1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا پی ٹی آئی کا وفد عمران خان سے ملاقات کر سکے گا؟

10 مئی 2023

پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ادھر پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے ایک ہنگامی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ بدھ کے روز عمران خان سے ملاقات کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

https://p.dw.com/p/4R7BR
Politik in Pakistan
پی ٹی آئی کا ایک وفد نیب کی حراست میں موجود عمران خان سے ملاقات کے لیے جائے گاتصویر: K.M. Chaudary/AP/dpa/picture alliance

منگل کی رات گئے پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کا ایک اجلاس منعقد ہوا، جس میں مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس دوران چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کی شدید مذمت کی گئی۔

احتجاج آئینی حق ہے، شاہ محمود قریشی

پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما شاہ محمود قریشی نے رات گئے منعقد ہونے والے پارٹی رہنماؤں کے اس اہم اجلاس کے بعد کہا کہ پر امن احتجاج کرنا پی ٹی آئی کے کارکنوں کا آئینی اور قانونی حق ہے، اس لیے عمران خان کی رہائی تک اس احتجاج کو جاری رکھا جائے گا۔ انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف سے عمران خان کی گرفتاری کے فیصلے کو قانونی قرار دینے کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ پی ٹی آئی کا ایک وفد بدھ کو نیب کی حراست میں موجود عمران خان سے ملاقات کے لیے جائے گا۔

فواد چودھری کے مطابق انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر مایوسی ہوئی ہے۔ ان کے بقول کسی کو پاکستان کا خیال نہیں اور اس سے پاکستان میں تقسیم بڑھی ہے۔

Pakistan I Verhaftung von Imran Khan
لاہور میں ایک عسکری شخصیت کا گھر بھی احتجاجی کارکنوں کے غصے کی زد میں آیاتصویر: Aamir Qureshi/AFP

فوجی علاقوں میں احتجاج

منگل کی شام عمران خان کی گرفتاری کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہروں کی ایک خاص بات رہی کہ مختلف شہروں میں احتجاجی کارکنوں نے کنٹونمنٹ ایریاز کی طرف مارچ کیا اور ان علاقوں میں نعرے بازی کرتے ہوئے املاک اور گاڑیوں کو نقصان پہنچایا۔ لاہور میں ایک عسکری شخصیت کا گھر بھی احتجاجی کارکنوں کے غصے کی زد میں آیا۔

پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی رہنما منزہ حسن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ احتجاجی کارکن شدید غم و غصے میں ہیں اور وہ بڑی تعداد میں کنٹونمنٹ کے علاقے میں احتجاج کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق احتجاجی کارکنوں کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ عمران خان کو فی الفور رہا کیا جائے۔

حالات کی خرابی حکومت کی نالائقی ہے، حمید خان

ممتاز عسکری تجزیہ کار فارووق حمید خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حالات حکومت کی نالائقی کی وجہ سے خراب ہوئے، ''حکومت کا عمران خان کی گرفتاری کے لیے پولیس کی بجائے رینجرز کو استعمال کرنے کا فیصلہ درست نہیں تھا۔‘‘ ان کے بقول، ''عمران خان کی گرفتاری پر جو خوفناک رد عمل آیا ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔‘‘

''حکومت ہوش کے ناخن لے‘‘

انہوں نے اپیل کی کہ عمران خان اپنے کارکنوں کو عسکری مقامات سے دور رہنے اور اشتعال انگیز احتجاج سے باز رہنے کی اپیل کریں، ''دوسری طرف حکومت بھی ہوش کے ناخن لے اور جھوٹے مقدمات ختم کر کے انتقامی کارروائیاں بند کرے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ اور ملک کے مقبول ترین لیڈر کو جس طرح تشدد کرکے گرفتار کیا گیا ہے، اس کی حمایت نہیں کی جا سکتی ملک کو اقتصادی بہتری اور استحکام کی طرف لے جانے کے لیے ضروری ہے کہ سیاست دان مل بیٹھ کر سنجیدہ بات چیت کے ذریعے ملکی مسائل کا کوئی حل نکالیں وگرنہ حالات بہت زیادہ خراب بھی ہو سکتے ہیں۔

''یہ غیر معمولی مظاہرے نہیں‘‘

سٹی فورٹی ٹو نیوز گروپ سے وابستہ پاکستان کے ایک سینیئر تجزیہ کار نوید چوہدری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ خان صاحب کی طرف سے اداروں کے خلاف بڑھتی ہوئی اشتعال انگیزی اور ان کے غیر مفاہمانہ رویے کی وجہ سے حالات اس حال تک پہنچے۔ ان کے بقول احتجاجی مظاہروں میں شریک نوجوانوں کی تعداد غیر معمولی نہیں تھی، ''ایجنسیوں کو پہلے سے علم تھا کہ احتجاجی کارکنوں کو کنٹونمنٹ کی طرف بھیجا جائے گا اور وہ حساس عمارتوں پر ہلہ بولیں گے، اس لیے انہوں نے کسی بھی جگہ پر ان کا راستہ نہیں روکا لیکن ان تمام کارکنوں کی ویڈیوز بن گئی ہیں اور انہیں اپنی قانون شکنی کا حساب دینا ہو گا۔‘‘

سیاسی مبصرین کے بقول اب دیکھنا یہ ہو گا کہ بدھ کے روز اس احتجاج میں کتنے لوگ شریک ہوتے ہیں۔ نوید چوہدری کا خیال ہے کہ اگر پی ٹی آئی کے کارکنوں کی تحریک جاری رہی تو پھر دیگر سیاسی جماعتیں بھی اپنے بیانیے کے حق میں اپنے کارکنوں کو میدان میں اتارنے پر مجبور ہوں گی، جس کے بعد پی ٹی آئی کی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

سوچا نہیں تھا حکام ’ریڈ لائن‘ پار کر لیں گے، پی ٹی آئی ورکرز

جگہ جگہ جلی ہوئی گاڑیاں

فورٹریس سٹیڈیم سے لے کر راحت بیکرز چوک کے آس پاس کے علاقوں میں جگہ جگہ جلائی جانے والی گاڑیوں کے ڈھانچے دکھائی دے رہے ہیں اور سڑکوں پر اینٹیں اور پتھر بکھرے ہوئے ہیں۔ عزیز بھٹی روڈ پر واقع سی ایس ڈی کا شاپنگ مال پر بھی احتجاجی کارکنوں نے دھاوا بولا۔ لاہور میں احتجاجی کارکنوں کی تعداد بتدریج کم ہوتی رہی اور منگل کو رات گئے یہ مظاہرین اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔

ٹریفک معمول سے کم

ادھر لاہور میں زمان پارک، مال روڈ، جی پی او چوک، اکبر چوک، لبرٹی چوک ، فیصل ٹاون اور ملتان روڈ پر چھوٹے بڑے احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ پی ٹی آئی کے ڈنڈا بردار کارکنوں نے پارٹی پرچم بھی اٹھائے ہوئے تھے اور حکومتی شخصیات کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔ لاہور میں سڑکوں پر معمول سے بہت کم ٹریفک دیکھنے میں آئی، مارکیٹیں وقت سے پہلے بند ہو گئیں جبکہ میٹرو بس سروس کو بھی بند کر دیا گیا۔

کارکنوں کی ہلاکت کی اطلاعات

لاہور، کراچی، پشاور، کوئٹہ، اسلام آباد اور فیصل آباد سمیت کئی شہروں میں پولیس اور احتجاجی کارکنوں میں جھڑپوں کی اطلاعات بھی ملی ہیں۔ پی ٹی آئی کی طرف سے ملک بھر میں جاری ان احتجاجی مظاہروں میں کچھ کارکنوں کی ہلاکت کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے بڑے پیمانے پر اپنے کارکنوں کی گرفتاریوں اور ان کے زخمی ہونے کا دعوی کیا ہے لیکن دوسری طرف پاکستان کی حکومت کی جانب سے اس حوالے سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا اور گرفتاریوں کی اطلاعات کی سرکاری طور پر تصدیق نہیں کی جا رہی۔

انٹرنیٹ سروس معطل

ان احتجاجی سرگرمیوں کے دوران منگل کی شام کو رات گئے تک پاکستان کے مختلف علاقوں میں موبائل اور انٹرنیٹ سروس معطل کر دی گئی تھی۔ پنجاب میں دفعہ ایک سو چوالیس نافذ کرکے جلوسوں، جلسوں اور احتجاجی مظاہروں پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ لاہور میں رینجرز کو طلب کر لیا گیا ہے۔

 تعلیمی ادارے بند

پنجاب میں احتجاجی سرگرمیوں کی وجہ سے صوبے بھر میں تعلیمی ادارے بند کر دیے گیے ہیں۔ بدھ کے روز ہونے والے لاہور بورڈ کے امتحانات منسوخ جبکہ برٹش کونسل، یونیورسٹی آف لندن اور کیمرج یونیورسٹی نے بھی اپنے امتحانات ملتوی  کرنے کا اعلان کیا ہے۔ 

ن لیگ کا جشن

ادھر پاکستان مسلم لیگ نون نے عمران خان کی گرفتاری پر شہر کے مختلف مقامات پر جشن منایا۔ اس موقع پر خوشی سے ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالے گئے اور اور مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔