1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا حکومت ’ہمارے بچوں کی موت‘ کی منتظر ہے، والدین کا احتجاج

19 فروری 2020

چینی صوبے ہوبے میں پھنسے ہوئے پاکستانی طلبہ کے والدین نے آج بدھ انیس فروری کو اسلام آباد میں احتجاج کے دوران مطالبہ کیا کہ ان کے بچوں کو فی الفور واپس پاکستان لایا جائے۔ حکومت کے ساتھ ان کی بات چیت بے نتیجہ رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/3Y0nl
Pakistan Flughafen Islamabad - Wiederaufnahme der Flüge nach China
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi

چینی شہر ووہان میں پھوٹنے والی کورونا وائرس کی وبا اب تک نہ صرف چین کے کئی علاقوں میں بلکہ دنیا کے 30 سے زائد ممالک تک بھی پہنچ چکی ہے۔

چینی حکومت نے صوبے ہوبے کو گزشتہ کئی ہفتوں سے الگ تھلگ کر رکھا ہے۔ وہاں سے نہ تو لوگوں کو نکلنے کی اجازت ہے اور نہ ہی کوئی وہاں جا سکتا ہے۔

اس چینی صوبے کی کئی یونیورسٹیوں میں بین الاقوامی طلبہ بھی کافی بڑی تعداد میں زیر تعلیم ہیں۔ کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد زیادہ تر ممالک وہاں سے اپنے طلبہ اور شہریوں کو خصوصی پروازوں کے ذریعے نکال چکے ہیں۔ کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثرہ شہر ووہان کے علاوہ صوبے ہوبے کے کئی دیگر شہروں میں بھی پاکستانی طلبہ کی کافی بڑی تعداد موجود ہے۔ پاکستانی حکام کی طرف سے تاہم ابھی تک ایسے طلبہ کو متاثرہ چینی علاقوں سے نکالنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔

سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی کئی ویڈیوز میں صوبے ہوبے میں پھنسے پاکستانی طلبہ کی طرف سے وہاں موجود مسائل اور وطن واپسی کے سلسلے میں چین میں موجود پاکستانی سفارت خانے اور پاکستانی حکومت کی عدم دلچسپی سے متعلق شکایات سنی جا سکتی ہیں۔

چین میں پھنسے ایسے طلبہ کے حوالے سے پاکستانی سوشل میڈیا پر بھی بحث جاری ہے۔ بہت سے لوگوں کی رائے ہے کہ چونکہ پاکستان کے پاس ایسی سہولیات اور ذرائع کی انتہائی کمی ہے، جو اس وبا پر قابو پانے کے لیے ضروری ہیں، اس لیے اگر یہ وائرس پاکستان پہنچ گیا اور وبائی شکل اختیار کر گیا، تو کافی زیادہ جانی نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔

دوسری طرف ایسے طلبہ کے والدین شدید پریشانی میں مبتلا ہیں۔ ایسے ہی ایک طالب علم کے والد ارشد علی ابڑو نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی حکومت کی طرف سے عدم توجہ پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔ ان کا بیٹا میڈیکل کا طالب علم ہے اور چینی صوبے ہوبے کے شہر جِنگ ژو میں زیر تعلیم ہے۔

ارشد علی ابڑو کے مطابق حالانکہ جِنگ ژو شہر ووہان سے تقریباﹰ ڈھائی سو کلومیٹر دور ہے مگر اب وہاں بھی یہ وائرس پہنچ چکا ہے اور اسی باعث یونیورسٹی اور شہری انتظامیہ نے طالب علموں کو اپنی یونیورسٹی تک ہی محدود رہنے کا حکم دیا ہے: ''اشیائے خورد و نوش کی کمی ہے مگر یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے طلبہ کی نقل و حرکت کو اس قدر محدود کر دیا گیا ہے کہ ہفتے میں ایک بار پورے گروپ کے کسی ایک طالب علم کو باہر جا کر ضرورت کا سامان لانے کی اجازت ملتی ہے۔‘‘

جِنگ ژو میں ہی موجود ایک پاکستانی طالب علم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے شہر میں اب تک ایک ہزار سے زائد افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے۔ محمد شہیر نامی اس طالب علم کے مطابق کورونا وائرس سے متاثر ہونے والوں میں ایک پاکستانی طالب علم بھی شامل ہے۔ شہیر کے مطابق اس کیس کے بعد انہیں حکام کی جانب سے اپنے کمروں تک ہی محدود رہنے کی ہدایات دے دی گئی تھیں۔

Pakistan Karatschi | Behandlungszentrum Coronavirus
جِنگ ژو میں ہی موجود ایک پاکستانی طالب علم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے شہر میں اب تک ایک ہزار سے زائد افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے۔تصویر: Reuters/A. Soomro

اسلام آباد حکومت نے اب تک چین میں پھنسے ہوئے پاکستانی طالب علموں کو واپس وطن لانے کے لیے کوئی عملی اقدامات نہیں کیے اور مستقبل قریب میں بھی ایسا ہونے کا بظاہر کوئی امکان نظر نہیں آتا۔

والدین اور وفاقی وزیر صحت کی ملاقات بے نتیجہ

چین میں پھنسے ہوئے پاکستانی طلبہ کے والدین آج 19 فرووی کو اسلام آباد میں جمع ہوئے، جہاں حکومت نے انہیں اس سلسلے میں بات چیت کے لیے بلایا تھا۔

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے صحت سے متعلقہ امور کے خصوصی معاون ڈاکٹر ظفر مرزا اور خصوصی مشیر زلفی بخاری اس ملاقات میں شریک ہوئے تاہم اس کا کوئی ٹھوس نتیجہ نہ نکلا۔ اس موقع پر ان والدین نے حکومت کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔ مظاہرین کا موقف تھا کہ حکومت پاکستانی طلبہ کو چین سے واپس لانے کے حوالے سے غلط بیانی سے کام لے رہی ہے اور انہیں چین سے ایسے طالب علموں کی واپسی کے سلسلے میں نہ تو کسی لائحہ عمل سے آگاہ کیا گیا ہے اور نہ ہی اس حوالے سے کسی تاریخ کا اعلان کیا گیا ہے۔

ارشد علی ابڑو کے مطابق نیپال، بنگلہ دیش اور بھارت کے علاوہ کئی افریقی ملک بھی خصوصی پروازوں کے ذریعے اپنے طلبہ کو چین سے واپس لے جا چکے ہیں مگر پاکستان ابھی تک اس کے لیے تیار نظر نہیں آتا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بچے خود اپنے خرچے پر بھی واپس آ سکتے ہیں مگر پاکستانی حکومت اس پر بھی تیار نہیں ہے۔ ابڑو نے کہا کہ ان طلبہ کو خصوصی پروازوں کے ذریعے پاکستان واپس لایا جائے اور انہیں احتیاطاﹰ کسی جگہ دو ہفتوں کے لیے قرنطینہ میں رکھا جائے تاکہ اگر کورونا وائرس کا کوئی خطرہ ہو بھی تو اس سے بچا جا سکے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اگر آپ ہمارے بچوں کو واپس نہیں لا سکتے تو کم از کم انہیں چین میں ہی کسی ایسی جگہ منتقل کیا جائے، جہاں ان کے اس خطرناک وائرس سے متاثر ہونے کا امکان نہ ہو۔‘‘

ارشد علی ابڑو نے اپنی گفتگو میں یہ بھی پوچھا کہ آیا پاکستانی حکومت اس بات کا انتظار کر رہی ہے کہ روشن قومی مستقبل کی خاطر اعلیٰ تعلیم کے لیے چین جانے والے یہ پاکستانی طلبا و طالبات اس مہلک وائرس کا شکار ہو جائیں؟ انہوں نے کہا، ''اگر حکومت نے مناسب اقدامات نہ کیے تو پھر والدین احتجاج کا راستہ اپنائیں گے کیونکہ وہ حکومت کی طرح اپنے بچوں کو لاوارثوں جیسا نہیں چھوڑ سکتے۔‘‘

کورونا وائرس: دوا ساز کمپنیاں حل کی تلاش میں

ڈی ڈبلیو کے ایڈیٹرز ہر صبح اپنی تازہ ترین خبریں اور چنیدہ رپورٹس اپنے پڑھنے والوں کو بھیجتے ہیں۔ آپ بھی یہاں کلک کر کے یہ نیوز لیٹر موصول کر سکتے ہیں۔