1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا بین الاقوامی امداد شام پہنچ رہی ہے؟

کشور مصطفیٰ15 جولائی 2015

شام میں عالمی ایڈ کی مستحقین تک رسائی کا معاملہ اس لیے تشویش کا باعث بنا ہے کہ اس کے اسلامک عسکریت پسندوں کے ہاتھوں لگ جانے کا خدشہ ہر کسی کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔

https://p.dw.com/p/1Fyqe
تصویر: WFP

جنگ سے تباہ حال عرب ریاست شام کے نہتے عوام کو امداد فراہم کرنے والے خیراتی اداروں نے فنڈنگز،مستحقین تک پہنچنے پر گہرے شبہات کا اظہار کیا ہے۔ مستقبل میں امداد کی فراہمی کے سلسلے کے بند ہو جانے کے خطرات سے خبردار کیا ہے۔

شام میں جنگ کے متاثرہ عوام کی مدد کرنے والی چیریٹیز کی سرگرمیوں اور اُن کی طرف سے اب تک شام بھیجی جانے والی امداد کے بارے میں تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن نے چھان بین کے بعد یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مستقبل میں شامی باشندوں کے لیے امداد دینے والے ادارے فنڈنگ کا سلسلہ بند کر سکتے ہیں۔ اِس کی بڑی وجہ یہ ہے کے شام کے بحران کی خراب سے خراب تر ہوتی صورتحال کے سبب یہ معلوم کرنا تقریباً ناممکن ہوتا جا رہا ہے کہ شام پہنچنے والی امداد کس سمت جا رہی ہے۔

Bildergalerie Zerstörerischer Krieg Syrien
شام کی بد سے بد تر ہوتی صورتحال امدادی پروگرام کی راہ میں حائل ہو رہی ہےتصویر: DW/Gaia Anderson

غیر واضح صورتحال

شام میں جنگ سے متاثرہ انسانوں کے لیے امداد فراہم کرنے والے دس غیر سرکاری اداروں یا این جی اوز، اقوام متحدہ کی ایجنسیوں اور انسانی بنیادوں پر امداد دینے والے مقامی اداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا ہے کہ اب تک اس امر کی تصدیق نہیں ہو پائی ہے کہ شامی باشندوں کے لیے فراہم کی جانے والی امداد شام کے بہت سے علاقوں میں مقیم حقیقی مستحقین تک پہنچی ہے۔

غیر سرکاری ادارے اور اقوام متحدہ کی ایجنسیاں اس بارے میں 40 تا 98 فیصد تک یقین کے ساتھ یہ کہہ رہی ہیں کہ امداد ایسے علاقوں تک جہاں ضروت مند شامی باشندوں عسرت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، اُن تک رسائی مشکل ہے اور ایسے محصور شدہ علاقوں کے باشندوں تک امداد بمشکل پہنچ رہی ہے جبکہ تین اداروں نے کہا ہے کہ اس بارے میں کچھ کہنا بہت مشکل ہے۔

شام میں سرگرم عالمی سطح پر مقبول ایک غیرسرکاری ادارے کا کہنا ہے کہ اُس کی طرف سے دی گئی تمام ایڈز کی تقسیم ضرورت مند شامی باشندوں تک پہنچائی گئی ہے۔ تاہم اس ادارے کا کہنا ہے کہ اُسے شام میں تعینات اپنے تین مقامی پارٹنرز کی سرگرمیاں کم کرنا پڑیں کیونکہ اُسے پتہ چلا ہے کہ یہ پارٹنرز امداد مستحقین تک نہیں پہنچا رہے تھے۔

مغربی ڈونرز کا موقف

امداد دینے والے مغربی ڈونرز تاہم یہ کہہ رہے ہیں کہ ماضی میں رونما ہونے والے ہنگامی حالات کے مقابلے میں شام کے بحران میں اُن کا تجربہ مثبت رہا ہے یعنی اندرون شام امداد کی چوری کے واقعات نسبتاً کم دیکھنے میں آئے ہیں اور جنگ سے تباہ حال اس ملک میں غیر سرکاری ادارے اور اُن کے پارٹنرز ممکنہ حد تک موثر طریقے سے امداد کی تقسیم کا کام انجام دے رہے ہیں۔

Syrien Flüchtlinge Kinder World Food Programme
ورلڈ فوڈ پروگرام کی شام میں سرگرمیتصویر: WFP

امداد کا غلط سمت میں بہاؤ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ افغانستان سے لے کر صومالیہ اور نائجر تک بارہا ایسی رپورٹیں سامنے آتی رہی ہیں کہ امداد لاپتہ ہو گئی ہے۔ اس بارے میں کہا گیا کہ یہ حکومتی وزراء اور مسلح دھڑوں کی تحویل میں چلی جاتی رہی ہے یا بس کہیں گم ہو جاتی ہیں اور اس کا کوئی اتا پتہ نہیں ملتا۔

شام میں عالمی ایڈ کی مستحقین تک رسائی کا معاملہ اس لیے تشویش کا باعث بنا ہے کہ اس کے اسلامک عسکریت پسندوں کےہاتھوں لگ جانے کا خدشہ ہر کسی کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ رواں سال کے اوائل میں اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام WFP نے متنبہ کیا تھا کہ سوشل میڈیا کے ایسے امیجز دیکھنے میں آئے ہیں جن میں ورلڈ فوڈ پروگرام کی طرف سے شام کے جنگ متاثرین کے لیے بھیجے گئے فوڈ ایڈ باکسز پر اسلامک اسٹیٹ کا لوگو دیکھنے میں آ رہا تھا۔

یاد رہے کہ اقوام متحدہ کی طرف سے شام کے لیے 2.9 بلین کی امداد کی درخواست کے باوجود اس کا محض 26 فیصد اب تک اکٹھا ہو سکا ہے۔