1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا بنگلہ دیش میں ہندو خود کو محفوظ محسوس کرتے ہیں؟

23 ستمبر 2022

گزشتہ برس درگا پوجا کے تہوار کے دوران ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کی یادیں بنگلہ دیش کے بہت سے ہندوؤں کے ذہنوں میں اب بھی تازہ ہیں۔ انہوں نے رواں برس اس تہوار کو زیادہ پرامن یقینی بنانے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4HF7z
Bangladesch Dhakeswari Hindu Temple
تصویر: Zobaer Ahmed/DW

بنگلہ دیش کا سب سے بڑا ہندو تہوار درگا پوجا، انیل کرشن پال کے لیے سال کا سب سے مصروف ترین وقت ہوتا ہے۔ 55 سالہ پال اور ان کی ٹیم تہوار کے دوران مندروں میں پوجا  کے لیے خصوصی منڈپ اور مورتیاں تیار کرتی ہے۔ اس سال انہیں 20 آرڈر ملے ہیں۔

پال نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا، ''پہلے، ہم لکڑی اور بانس سے ایک فریم بناتے ہیں۔ پھر ہم گھاس سے مورتی کا ڈھانچہ بناتے ہیں اور اسے فریم پر لگاتے ہیں۔ اس کے بعد ہم مٹی کا کام شروع کرتے ہیں۔''

انہوں نے تیار شدہ مورتیوں کی ایک قطار دکھاتے ہوئے بتایا، ''بنیادی ڈھانچہ اور مٹی کے کام کو مکمل کرنے میں آٹھ دن لگتے ہیں۔ پھر ہمیں اسے رنگنے کے لیے مزید دو دن درکار ہوتے ہیں۔''

پال کی ورکشاپ جنوب مشرقی بنگلہ دیش کے شہر کمیلا میں واقع ہے۔ جہاں گزشتہ سال درگا پوجا کی تقریبات کے دوران مشتعل مسلمانوں کے ایک ہجوم نے ہندو مندروں پر حملہ کردیا تھا۔

مورتیوں کو مکمل کرنے میں آٹھ دن لگتے ہیں۔ پھر اسے رنگنے کے لیے مزید دو دن درکار ہوتے ہیں
مورتیوں کو مکمل کرنے میں آٹھ دن لگتے ہیں۔ پھر اسے رنگنے کے لیے مزید دو دن درکار ہوتے ہیںتصویر: Zobaer Ahmed/DW

پچھلے سال کیا ہوا تھا؟

سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر گردش کرنے والی فوٹیج میں ہندو دیوتا ہنومان کی گود میں قرآن پاک کا ایک نسخہ رکھا ہوا دکھایا گیا تھا۔

اس ویڈیو کو بنگلہ دیش کی مسلم اکثریت کی توہین کے طور پر دیکھا گیا اور اس کی وجہ سے ایک درجن سے زائد اضلاع میں سینکڑوں افراد مشتعل ہوگئے۔ احتجاج کرنے والے مسلمانوں نے ہندوؤں کے گھروں پر حملے کر دیے اور سات افراد ہلاک ہوگئے۔

فوٹیج میں نظر آنے والے مجسمے کو انیل کرشنا پال نے ہی تیار کیا تھا۔

پال کہتے ہیں، "مجھے بہت برا لگا۔ میں اور کیا کہہ سکتا ہوں؟ جو مورتی میں نے خود بنایا تھا وہ تباہ ہو گیا۔ ہم اس کی پوجا بھی نہیں کر سکے، کیا یہ دکھ کی بات نہیں؟ ہم بت سے عقیدت کا اظہار کرتے ہیں، ان پر نذریں چڑھاتے ہیں۔ لیکن میرا دل ٹوٹ گیا۔"

حالانکہ یہ بعد میں پتہ چلا کہ یہ مذہبی کشیدگی کو ہوا دینے کے لیے ایک دانستہ چال تھی۔ سی سی ٹی وی فوٹیج میں ایک شخص کو مندر میں مورتی پر قرآن رکھتے ہوئے پایا گیا۔ بعد میں اسے گرفتار کر لیا گیا۔

بعد میں پتہ چلا کہ یہ مذہبی کشیدگی کو ہوا دینے کے لیے ایک دانستہ چال تھی
بعد میں پتہ چلا کہ یہ مذہبی کشیدگی کو ہوا دینے کے لیے ایک دانستہ چال تھیتصویر: bdnews24.com

مندر پر حملہ

ہندو اکثریتی محلے میں رہنے والی 45 سالہ رتنا داس نے گزشتہ سال اپنی آنکھوں کے سامنے فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات رونما ہوتے دیکھے تھے۔

رتنا داس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمارا علاقہ حملے کی زد میں آنے والا دوسرا علاقہ تھا۔ ہمارے محلے کے نوجوان مردوں اور عورتوں نے مزاحمت کی اور ہمارے مندر  کی حفاظت کی۔ اب ہم نے یہاں ایک گیٹ لگا دیا ہے تاکہ کسی ناخوشگوار واقعے کو رونما ہونے سے روکا جاسکے۔"

انہوں نے مزید بتایا، ''تاہم، انہوں نے دوسرے علاقوں میں توڑ پھوڑ کی۔ ایک دوسرے مندر کا مین گیٹ تباہ کر دیا گیا۔ سجاوٹی اشیاء، ساونڈ باکس، قمقموں وغیرہ کو توڑ دیے۔ کئی افراد زخمی بھی ہوئے۔"

سن 2013 سے سن2021 کے درمیان ہندوؤں پر 3,500 سے زیادہ حملے ہوئے
سن 2013 سے سن2021 کے درمیان ہندوؤں پر 3,500 سے زیادہ حملے ہوئےتصویر: Zobaer Ahmed/DW

جشن 'خوف کے ساتھ'

بنگلہ دیش میں ہندوؤں اور دیگر مذہبی اقلیتوں پر حملے کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ بنگلہ دیشی انسانی حقوق کی تنظیم عین الثالث کیندر (اے ایس کے) کے مطابق گزشتہ سال درگا پوجا  پر ہونے والے حملوں سے پہلے بھی 100 سے زائد ہندوؤں کے گھروں پر حملے ہو چکے تھے۔

سن 2013 سے سن2021 کے درمیان ہندوؤں پر 3,500 سے زیادہ حملے ہوئے جن میں مندروں پر 1,678 حملے اور مورتیوں کی توڑ پھوڑ شامل ہے۔

رتنا داس نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ''لیکن ہم نے پچھلے سال کی طرح ایسے حملے نہیں دیکھے تھے۔ یہاں تک کہ ہمارے باپ دادا اور آباؤ اجداد نے بھی کمیلا میں ایسے واقعات  نہیں دیکھے تھے۔ اس لیے ہم ذرا ڈرے ہوئے ہیں۔''

رتنا داس کی پڑوسی، نیپا پال کا کہنا تھا،''میری آٹھ سالہ بیٹی مجھ سے پوچھ رہی تھی کہ کیا کوئی پوجا ہوگی؟ ہم جانتے ہیں کہ ہم تہوار منائیں گے، لیکن ڈر ہے کہ ایسی صورت حال دوبارہ نہ پیدا ہوجائے۔''

بنگلہ دیشی پولیس نے کہا کہ وہ پورے ملک میں خطرے کا اندازہ لگا رہے ہیں۔
بنگلہ دیشی پولیس نے کہا کہ وہ پورے ملک میں خطرے کا اندازہ لگا رہے ہیں۔تصویر: bdnews24.com

پولیس تحفظ

اس سال درگا پوجا پورے بنگلہ دیش میں 32,000 سے زیادہ مندروں اور عارضی مندروں میں منائی جائے گی۔ حکام کا کہنا ہے کہ انہیں توقع نہیں کہ پچھلے سال جیسے حالات پیدا ہوں گے۔

بنگلہ دیش کے وزیر داخلہ اسد الزماں خان کمال نے منتظمین اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے ساتھ میٹینگیں کی ہیں اور اس بات پر زور دیا ہے کہ اس سال سکیورٹی میں اضافہ کیا جائے گا۔

'ہندوؤں کے لیے تو صرف بھارت ہی ہے‘  وزیر اعلٰی گجرات

بنگلہ دیش میں ہندو مندروں پر انتہاپسندوں کے حملے

انہوں نے نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''میں نے منتظمین سے تمام پوجا منڈپوں میں سی سی ٹی وی کیمرے لگانے کو کہا ہے۔ ہم کافی تعداد میں پولیس یا دیگر قانون نافذ کرنے والے ارکان کو تعینات کریں گے۔''

بنگلہ دیشی پولیس نے کہا کہ وہ پورے ملک میں خطرے کا اندازہ لگا رہے ہیں۔

بنگلہ دیش پولیس کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل محمد حیدر علی خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ''جب سے مورتیوں کی تیاری شروع ہوئی ہے ہم نے اسی وقت سے حفاظتی اقدامات کرنا شروع کر دیے ہیں۔''

انہوں نے مزید کہا ''ہمارے انٹیلیجنس محکمے معلومات اکٹھا کر رہے ہیں تاکہ ہم خطرے کی سطح کا اندازہ لگا سکیں اور اس کے مطابق اقدامات کر سکیں۔''

تاہم پوجا کے منتظمین موجودہ صورتحال سے پوری طرح مطمئن نہیں ہیں۔

بھارت میں اسلامو فوبیا کی لہر، عبادت گاہیں محفوظ نہیں

ایک پوجا کمیٹی کے منتظم پودّار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم ایک ایسا سماجی نظام چاہتے ہیں جہاں کسی مذہبی تہوار کو پولیس سکیورٹی کی ضرورت نہیں ہو۔ یہ ہماری قومی آزادی کا بنیادی مطلب تھا۔ یہاں آپ پولیس کی حفاظت میں پوجا منائیں گے، اس کا کوئی مطلب نہیں ہے۔"

مسلم علماء نے سماجی ہم آہنگی کی اپیل کی  ہے
مسلم علماء نے سماجی ہم آہنگی کی اپیل کی ہےتصویر: Joy Saha/ZUMA Wire/IMAGO

مسلم علماء کی جانب سے ہم آہنگی کی اپیل

دریں اثناء ڈھاکہ کی مرکزی مسجد بیت المکرم میں نماز جمعہ سے قبل مسلم علماء نے سماجی ہم آہنگی کی اپیل کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام ''دوسروں'' کو تکلیف دینے کی اجازت نہیں دیتا۔

ایک 20 سالہ اسلامی طالب علم محمد شاہد الاسلام کا کہنا تھا، ''اسلام کہتا ہے کہ اگر دوسرے مذاہب کے لوگ بھی آپ کے ساتھ رہتے ہیں، تو انہیں مسلمانوں کی عمل سے کوئی نقصان نہیں پہنچانا چاہیے۔''

ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مختلف عقیدے کے حامل شخص پر کوئی مخصوص مذہبی اقدار مسلط نہیں کی جا سکتیں۔

ان کے دوست علی حسن کا کہنا تھا،"وہ سمجھتے ہیں کہ نفرت اور لڑائی کسی غلط فہمی کا حل نہیں ہے۔ ہمارے پیغمبر نے ہمیں کسی سے نفرت نہیں کرنے کی تعلیم دی ہے۔"

دریں اثنا، بیت المکرم مسجد کے امام نے اقلیتوں کے خلاف جرائم کی روک تھام کے لیے مناسب کارروائی کا مطالبہ کیا۔ حافظ مولانا مفتی روح الامین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''حکومت کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ایسے واقعات دوبارہ رونما نہ ہوں۔انہیں کارروائی کرنی چاہیے۔ انہیں ایسے مجرموں پر نظر رکھنی چاہیے۔''

Attack on officers of Khulna Sadar police station | Bangladesh
تصویر: bdnews24.com

حکومت کتنی فعال ہے؟

 ایک عام تاثر ہے کہ بنگلہ دیش کی حکمران عوامی لیگ کو زیادہ تر اقلیتی ووٹ ملے ہیں کیونکہ وہ مذہبی انتہائی دائیں بازو کی طرف جھکاؤ نہیں رکھتی، حالانکہ ہندو رہنماؤں کو شکایت ہے کہ حکومت ان کا تحفظ کرنے میں ناکام رہی ہے۔

پودار نے ڈی ڈبلیوسے بات کرتے ہوئے کہا، ''یہ بہت مایوس کن ہے کہ مجرموں کو سزا نہیں دی گئی۔ اس لیے یکے بعد دیگر حملے کرنے کے لیے انہیں حوصلہ ملا۔"

بنگلہ دیش میں ایک بزرگ ہندو پنڈت کی ہلاکت کے بعد کریک ڈاؤن

بنگلہ دیش میں ایک اور ہندو پروہت کا قتل

بنگلہ دیش میں ایک ہندو درزی قتل، توہین رسالت کا الزام

گزشتہ سال درگا پوجا کے حملوں کے بعد پولیس نے کم از کم 52 مقدمات درج کیے تھے۔ انہوں نے اہم ملزم اور سینکڑوں دیگر افراد کو بھی گرفتار کیا - لیکن مقدمات ابھی تک زیر التوا ہیں۔

ڈی آئی جی خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم نے زیادہ تر مقدمات کی تحقیقاتی رپورٹیں عدالت میں جمع کرادی ہیں۔ کچھ تحقیقات ابھی جاری ہیں۔''

بنگلہ دیش میں صحافی اور فرقہ وارانہ تنازعات پر محقق شہریار کبیر کا خیال ہے کہ حکومت کو فعال ہونا ہوگا۔ کبیر نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ''ہم نے مذہبی اقلیتوں کے لیے ملک کو محفوظ بنانے کے لیے حکومت کو مختصر مدت اور طویل مدتی اقدامات کرنے کا مشورہ دیا ہے۔''

مذہب کا سیاسی استعمال: کئی حلقوں کو تشویش

''مختصر مدت میں، انہیں مجرموں کو سزا دے کر متاثرین کو انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا۔ طویل مدت میں، ہم نے ان سے قومی اقلیتی کمیشن بنانے یا اقلیتوں کے تحفظ کا قانون بنانے کی اپیل کی ہے۔''

ج ا/ ص ز (زبیر احمد، ڈھاکہ)