1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا اورنج ٹرین پاکستان میں ثقافتی انقلاب لا سکتی ہے؟

21 جون 2024

اورنج ٹرین پاکستان کی پہلی میٹرو ٹرین ہے۔ لاہور کی طرح پاکستان کے ہر بڑے شہر میں ٹرینوں کا ایسا نظام آ جائے تو پاکستان میں ثقافتی انقلاب آ سکتا ہے۔ لوگوں میں ایک ساتھ سفر کرنے سے صبر و تحمل پیدا ہوگا۔

https://p.dw.com/p/4gchf
DW Urdu Blogerin Tehreem Azeem
تصویر: privat

اورنج ٹرین پچھلے ساڑھے چار سالوں سے لاہور میں علی ٹاؤن سے ڈیراں گجراں کے درمیان ستائیس کلومیٹر کے فاصلے پر چل رہی ہے۔ اس ٹرین کے ذریعے روزانہ لاکھوں مسافر سفر کرتے ہیں۔ مجھے کچھ دن قبل اس ٹرین پر پہلی دفعہ سفر کرنے کا اتفاق ہوا۔ سٹیشن میں داخل ہوتے ہی ایسے لگا جیسے میں واپس بیجنگ سب وے میں آ چکی ہوں۔ ویسے ہی سٹیشن، ویسی ہی ٹرینیں اور ویسا ہی نظام۔

سٹیشن صاف ستھرا تھا۔ ہر جگہ عملہ تحمل کے ساتھ مسافروں کی مدد کر رہا تھا۔ میں کاؤنٹر سے ٹوکن خرید کر ٹرین کی طرف چلی گئی۔ چین میں بہت کم لوگ سب وے کا ٹکٹ خریدتے ہیں۔ زیادہ تر افراد اپنے فون میں موجود سب وے کی ایپ کی مدد سے رقم کی ادائیگی کرتے ہیں۔ انہیں بس ایپ کھول کر اس میں موجود کیو آر کوڈ مشین پر سکین کرنا ہوتا ہے۔

پچھلے سال چین نے اپنے کئی بڑے شہروں کے سب وے سٹیشنز پر فیشل ریکگنیشن اور ہتھیلی کے ذریعے رقم کی ادائیگی کا نظام متعارف کروایا تھا تاکہ لوگوں کو یہ ایپ کھولنے کی بھی ضرورت نہ پیش آئے۔ ہمارے ہمسائے ہونے کے باوجود چینی ہم سے قریباً ایک صدی آگے ہیں۔ اچھے ہمسائے کا کردار نبھاتے ہوئے اس نے پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت ہمیں اورنج ٹرین بنا کر دی ہے۔ 

میں اپنا ٹوکن مشین پر سکین کر کے برقی سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئی۔ بیجنگ میں سب وے کی برقی سیڑھیوں پر لوگ دائیں طرف کھڑے ہوتے ہیں۔ بائیں طرف کی جگہ خالی رہتی ہے تاکہ کسی نے آگے جانا ہو تو چلا جائے۔ یہاں لوگ سیڑھیوں پر دائیں طرف بھی کھڑے تھے اور بائیں طرف بھی۔ ٹرین کے پلیٹ فارم پر مسافروں کی مدد کے لیے کئی سکرینیں لگی ہوئی تھیں۔ ان پر اگلی ٹرین کے آنے کا وقت بتایا جا رہا تھا۔ لوگ ٹرین کا انتظار کرتے ہوئے بار بار ان سکرینوں کی طرف دیکھ رہے تھے۔ ٹرین آئی تو میں اس کے ایک ڈبے میں سوار ہو گئی۔ ٹرین کا اگلہ حصہ صرف خواتین کے لیے مخصوص تھی جبکہ پچھلے حصے میں مردوں کے ساتھ خواتین اور بچے بھی سفر کر سکتے تھے۔ بیجنگ میں اس قسم کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ تاہم، اسلامی ممالک میں یہ عام رواج ہے۔

اورنج ٹرین میں مردوں کا رویہ خواتین کے لیے دیگر پبلک ٹرانسپورٹ کے مقابلے میں کافی بہتر تھا۔ آدمی خواتین کے ساتھ خالی سیٹ دیکھ کر انہیں اجازت بھری نظروں سے دیکھتے تھے۔ ان کے اجازت دینے پر وہ سیٹ پر زرا سا ٹک کر بیٹھ جاتے تھے۔ میٹرو ٹرین لوگوں کو محفوظ سفر کا احساس دیتی ہے۔ مسافر سکیورٹی سے گزر کر اور ٹکٹ خرید کر ٹرین میں سوار ہوتے ہیں۔ وہ دورانِ سفر کچھ غلط کریں تو انہیں اس کی سنگین سزا بھگتنی پڑ سکتی ہے۔ 

میرے ساتھ ایک خاتون بیٹھی تھیں۔ انہوں نے مجھے ٹرین میں نیا سمجھ کر خود ہی اس پر سفر کرنے کے متعلق بتانا شروع کر دیا۔ میں بس مسکرا کر انہیں دیکھتی رہی۔ ان کی ہدایات سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ ٹرین پر روزانہ سفر کرتی تھیں اور اس سے کافی حد تک مطمئن تھیں۔ کسی بھی معاشرے میں ایسا نیا تصور لایا جائے جو لوگوں کی زندگی بہتر بنا سکتا ہو تو لوگ اسے جلد ہی اپنا لیتے ہیں۔

ابھی اورنج ٹرین صرف ایک روٹ پر چل رہی ہے۔ اس طرح کی مزید ٹرینز بن جائیں، جو شہر کے ہر حصے تک جاتی ہوں تو لاہور کا شمار دنیا کے بہترین شہروں میں ہونے لگے گا۔ لاہور کی طرح پاکستان کے ہر بڑے شہر میں ایسا نظام آ جائے تو پاکستان میں ثقافتی انقلاب آ سکتا ہے۔ لوگوں میں ایک ساتھ سفر کرنے سے صبر و تحمل پیدا ہوگا۔ وہ ایک دوسرے کی موجودگی کو قبول کریں گے۔ خواتین کو محفوظ سفر کرنے کا موقع ملے گا تو وہ اپنے گھروں سے آسانی سے نکل سکیں گے۔ اس سے ملک کی معیشت بہتر ہوگی۔ اس کے علاوہ لوگ وقت کی پابندی کرنا سیکھیں گے۔ ان کی نقل و حرکت ٹرینوں کے اوقات کے مطابق ہو جائے گی۔ ان میں نظم و ضبط بھی پیدا ہوگا۔ وہ ایک دوسرے کا احترام کرنا سیکھیں گے۔ 

پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرنے کی وجہ سے ان کے ہر ماہ ہزاروں روپے بچیں گے جو وہ کسی اور جگہ خرچ کر سکیں گے۔ لوگوں کا اپنے گھروں سے نکلنا اور کسی بھی جگہ پہنچنا آسان ہو جائے گا۔ لیکن اس انقلاب کے لیے ضروری ہے کہ حکومت ان ٹرینوں کا نظام یہاں کے لوگوں کی ضروریات کے مطابق چلائے۔ اسی طرح سٹیشنوں اور ٹرینوں میں صفائی کا معیار برقرار رکھے۔ زیادہ ٹرینیں چلائے تاکہ ٹرینوں میں لوگوں کا رش نہ بڑھے۔ اس کے علاوہ سٹیشنوں اور ٹرینوں میں اشتہارات کے لیے جگہ مخصوص کرے تاکہ ان سے اضافی کمائی آ سکے۔

دنیا کے ہر انسان کی طرح ہم پاکستانی بھی تیز رفتار، آرام دہ اور محفوظ سفر کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ میٹرو بسوں اور اورنج ٹرین نے بہت سے پاکستانیوں کو ایسے سفر کا تجربہ حاصل کرنے کا موقع دیا ہے۔ ایسے پراجیکٹس پر مزید کام ہونا چاہیے اور ہر بڑے شہر میں میٹرو ٹرینوں کا جال بچھنا چاہیے۔ اس سے نہ صرف ہمارا ملک ترقی کرے گا بلکہ ہم بھی ایک تہذیب یافتہ قوم بنیں گے۔  

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔‍