کیا افغان وفد کو پاکستان میں سرد مہری کا سامنا رہا؟
14 اگست 2015افغان وفد کے دیگر ارکان میں قائم مقام وزیر دفاع معصوم استانکزئی، قومی سلامتی کے مشیر حنیف اتمر اور افغان خفیہ ایجنسی کے سربراہ رحمت اللہ بھی شامل تھے۔ یہ صلاح الدین ربانی کا افغان وزیر خارجہ کی حثیت سے پاکستان کا پہلا دورہ تھا۔
افغان وفد نے جمعرات کی شام پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے قومی سلامتی اور خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز سے ملاقاتیں کیں۔
پاکستان کی سرکاری خبررساں ایجنسی اے پی پی کے مطابق افغان وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی اور پاکستانی وزیر اعظم کے درمیان ہونے والی ملاقات کے دوران دو طرفہ تعلقات اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہٴ خیال ہوا۔
خیال رہے کہ رواں ہفتے کے آغاز پر کابل میں ہونے والے پے درپے دہشت گردانہ حملوں کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان کے خلاف سخت لب و لہجہ اپناتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ وہ اس بارے میں پاکستانی حکام سے بات چیت کے لیے جمعرات کو ایک افغان وفد اسلام آباد بھیجیں گے۔
افغان وفد کے ارکان سے سرتاج عزیز کی ملاقات کے بعد جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ ملاقات میں دونوں جانب سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے باہمی تعاون کو جاری رکھنے کی امید ظاہر کی گئی۔
سرتاج عزیز نے ملاقات میں افغان وفد کے اراکین سے کہا کہ دونوں ممالک کو ایک دوسرے پر اعتماد کر کے ان عناصر کی کوششوں کو ناکام بنانا ہو گا جو کہ ایک عرصے سے دونوں برادر ممالک کے درمیان کشیدگی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
خیال رہے کہ اس اعلیٰ سطحی افغان وفد کے دورے کو پاکستان میں سرکاری سطح پر کافی ’لو پروفائل‘ رکھا گیا۔ پاکستان کے ایک اہم انگریزی اخبار ’ڈان‘ نے اپنی ایک خبر میں لکھا کہ افغان وفد کو پاکستانی حکام کی جانب سے قدرے سرد مہری والے رویے کا سامنا کرنا پڑا۔
دوسری جانب پاکستانی دفتر خارجہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان نے اسی وقت افغان وفد کے دورے کو اہمیت نہ دینے کا فیصلہ کیا تھا، جب افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان کے خلاف سخت رویہ اپناتے ہوئے اپنا وفد اسلام آباد بھجوانے کا اعلان کیا تھا۔
ذرائع کے مطابق کسی بھی ثبوت کے بغیر کابل میں دہشت گردی کے واقعات میں پاکستان کو ملوث کرنا افغان صدر کے لیے مناسب نہیں تھا اور اس طرح سے وفد پاکستان بھجوانے کا معاملہ بھی سفارتی آداب کے منافی تھا۔
دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر ریٹائرڈ اسد منیر کا کہنا ہے کہ اس سال کے آغاز پر نئی افغان حکومت آنے کے بعد پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات بہت اچھے ہو گئے تھے لیکن حال ہی میں افغان صدر اشرف غنی کی پریس کانفرنس کی وجہ سے کچھ غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں۔
انہوں نے کہا:’’اب دونوں جانب کی قیادت کو چاہیے کہ وہ دو طرفہ تعلقات کو مزید خراب ہونے سے بچائے۔ اس کے لیے دونوں جانب سے بیانات دیتے وقت احتیاط کرنا ضروری ہے اور امریکا، چین کی شراکت سے افغان حکومت اورتحریک طالبان افغانستان کے درمیان پاکستان کی میزبانی میں مذاکرات کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا، اس کو ہر قیمت پر جاری رہنا چاہیے۔‘‘
افغان وفد کے حالیہ دورہٴ پاکستان میں اسے ملنے والے مبینہ سرد مہری کے رویے کے دونوں ممالک کے مستقبل میں تعلقات پر ممکنہ اثرات کے بارے میں سوال کے جواب میں اسد منیر نے کہا:’’اس پر افغان حکام کو، اشرف غنی کو سوچنا چاہیے کہ اگر وہ بغیر ثبوت کے الزام لگائیں گے تو اس کے ردعمل میں اس طرح کا رویہ غیر متوقع نہیں ہے پاکستان کا۔‘‘
دفترخارجہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ سرتاج عزیز نے بھی افغان وفد پر زور دیا کہ وہ افغانستان میں قیام امن کے لیے طالبان کے ساتھ شروع کیے گئے بات چیت کے عمل کو جاری رکھیں۔