1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا افغانستان میں امن و امان پاکستانی تعاون کے بغیر ممکن ہے؟

20 مارچ 2018

افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کو کابل میں سرکاری دورے کے رسمی دعوت نامے کا گزشتہ ہفتے اعلان کیا گیا تھا۔ تاہم اسلام آباد حکومت ابھی تک یہ دعوت قبول کرنے پرغور کر رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/2udFe
Afghanistan TAPI - Treffen von Politiker aus Afghanistan, Turkmenistan, Pakistan und Indien
تصویر: DW/S. Tanha Shokran

افغانستان اور پاکستان کے تجزیہ نگار افغان صدر اشرف غنی کے اس دعوت نامے کو خوش آئند قرار دے رہے ہیں۔ پاکستانی دارالحکومت میں موجود سینئر صحافی حامد میر نے بھی ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صدر غنی کی وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کو کابل کی دعوت خوش آئند ہے کیونکہ ایک طویل عرصے سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کشیدگی کا شکار ہیں۔

افغان صدر کی پاکستانی وزیر اعظم کو کابل آنے کی دعوت

حامد میر نے بتايا کہ ان کے پاس موجود اطلاعات کے مطابق افغانستان میں امن و امان کی بحالی کی کوششوں کے تناظر میں وزیر اعظم پاکستان جلد ہی کابل کا دورہ کریں گے تاہم فی الحال حتمی طور پر اس فيصلے کا اعلان نہيں کيا گيا ہے۔

Afghanistan Kabul Friedens-Konferenz
تصویر: Reuters/O. Sobhani

’کابل امن عمل‘ کانفرنس میں افغان طالبان سے بات چیت کا اعلان

دوسری جانب کابل میں موجود افغان صحافی فہیم دشتی نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صدر غنی کا پاکستانی وزیراعظم کو کابل کی دعوت دینا حکومت کی نئی کی منصوبہ بندی کا ایک جز ہے۔ گزشتہ مہینے افغان حکومت کی جانب سے کابل کانفرنس میں افغان طالبان سے بات چیت کا اعلان کیا گیا تھا۔ فہیم دشتی کے خیال میں افغان حکومت کا ماننا ہے که افغانستان میں قيام امن پاکستان کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ 

پاک افغان کشیدگی، کابل حکومت کا وفد اسلام آباد میں

ایک سوال کے جواب میں فہیم دشتی کا کہنا تھا کہ اگر اشرف غنی بھارت اور افغانستان کے مابین بڑھتے ہوئے تعلقات پر پاکستان کے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرانے ميں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو شاید پاکستان طالبان پر اپنے مبينہ اثر و رسوخ کا فائده اٹهاتے ہوئے انہیں امن مذاکرات کی پیشکش قبول کرنے پر آمادہ کرسکتا ہے۔ 

کیا پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بہتر ہو سکتے ہیں؟

’افغان طالبان پر اسلام آباد سے زیادہ تہران اور موسکو کا اثر و رسوخ‘

دوسری جانب پاکستانی صحافی حامد میر کے بقول پاکستان افغان طالبان سے بات چیت کے سلسلے میں کابل حکومت کی مدد کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغان طالبان اسلام آباد کے مقابلے میں تہران اور موسکو کے زيادہ اثر و رسوخ میں ہیں۔

ماضی میں افغان حکومت کی جانب سے پاکستان پر شدید تنقید کی جاتی رہی ہے کہ افغانستان میں بدامنی کی کارروائیوں کی منصوبہ بندی سرحد پار کی جاتی ہے۔ اس بارے میں حامد میر کا کہنا تھا کہ سابق افغان صدر حامد کرزئی کے دور حکومت میں افغانستان کے پاس ایران اور افغان طالبان کے درمیان مبينہ ’مضبوط روابط‘ کے ثبوت موجود تھے لیکن افغان حکومت کی جانب سے پاکستان کو آسان حریف سمجھ کر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ 
 واضح رہے کہ صدر غنی کی جانب سے رسمی دعوت نامے کا اعلان پاکستان کے مشير برائے قومی سلامتی ناصر جنجوعه کے ساتھ کابل ميں گزشتہ ہفتے ايک ملاقات کے بعد کیا گیا تھا۔