1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کچہری میں دہشت گردانہ واقعات میں زخمی ہونے والوں کی حالت نازک

شکور رحیم۔ اسلام آباد3 مارچ 2014

پیر کے روز پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسزز(پمز) کی ترجمان ڈاکٹر عائشہ عیسانی نے ایک بیان میں کہا کہ زخمیوں میں سے بعض کی حالت تشویشناک ہے۔

https://p.dw.com/p/1BIfG
تصویر: Reuters

پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد کے سیکٹر ایف ایٹ میں واقع ضلع کچہری میں فائرنگ اور خود کش حملوں کے نتیجے میں سیشن جج اور ایک خاتون وکیل سمیت گیارہ افراد ہلاک اور 25 زخمی ہوگئے ہیں۔ اس حملے کی زمہ داری فوری طور سے کسی نے بھی قبول نہیں کی ہے۔ کالعدم تحریک طالبان نے بھی اس حملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔

پیر کے روز پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسزز(پمز) کی ترجمان ڈاکٹر عائشہ عیسانی نے ایک بیان میں کہا کہ زخمیوں میں سے بعض کی حالت تشویشناک ہے۔ ترجمان کے مطابق ہسپتال میں لائے گئے مردہ اور زخمی افراد میں زیادہ تر گولیوں کا جبکہ چند دھماکہ خیز مواد کا نشانہ بنے۔

اسلام آباد کچہری میں یہ حملے ایک ایسے موقع پر کیے گئے ہیں جب گزشتہ ہفتے وزارت داخلہ کے حکام نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں ایک رپورٹ پیش کی تھی جس کے مطابق اسلام آباد ملک کے غیر محفوظ ترین شہروں میں سے ایک ہے۔

اس رپورٹ کے اگلے ہی روز وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اس کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ اسلام آباد میں بہترین حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں۔

Pakistan Gespräche Regierung Taliban 06.02.2014
وفاقی حکومت نے ایک روز قبل طالبان کے خلاف فضائی کاروائی روکنے کا اعلان کیا تھاتصویر: Aamir Qureshi/AFP/Getty Images

اسلام آباد کچہری پر حملے کے بعد حزب اختلاف کے راہنماؤں نے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے ۔ پیر کی شام ایوان بالا (سینٹ) میں اپوزیشن جماعتوں کے ارکان نے وزیر داخلہ کی ایوان میں عدم موجودگی پر احتاجاً واک آؤٹ بھی کیا۔

دوسری جانب قومی اسمبلی کے اجلاس میں معمول کی کاروائی معطل کر کہ اسلام آباد خود کش حملوں پر بحث کا آغاز کیا گیا۔ قائد حذب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا کہ وزیر داخلہ نے اسلام آباد میں دہشت گردی کے خطرے سے متعلق رپورٹ پر ایک جذباتی پریس کانفرنس کی تھی اسلام آباد محفو ظ نہیں تو باقی کیا بچا ہے انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ پارلیمنٹ بھی محفوظ نہیں اور اگر پارلیمنٹ پر حملہ ہوا تو حکومت نہیں بچے گی۔

اسی دوران سعودی عرب سے وطن لوٹنے والے طالبان مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے کہا ہے کہ طالبان نے اس حملے سے لا تعلقی کا اظہار کیا ہے۔اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے مولانا سمیع الحق کا کہنا تھا،" یہ چیزیں ہوں گی ۔ لازماً دھماکے ہوں گے۔ دشمن پورا زور لگائے گا کہ ساری پیشرفت خراب ہو جائے تباہ ہو جائے ۔ ہمارا ملک پھر خانہ جنگی کی طرف چلا جائے ۔ ہمیں ڈٹنا ہو گا۔ حوصلہ رکھنا ہو گا ایک دوسرے پر الزامات نہیں لگانا ہوں گے ۔ دونوں فریق مل کر تیسرے دشمن کو تلاش کریں"۔

Imran Khan PTI Pakistan
"ان حملوں میں امریکا کا ہاتھ ہو سکتا ہے": عمران خانتصویر: Reuters

خیال رہے کہ کالعدم تحریک طالبان کی جانب سے ایک ماہ کی جنگ بندی کے اعلان کے بعد وفاقی حکومت نے ایک روز قبل طالبان کے خلاف فضائی کاروائی روکنے کا اعلان کیا تھا۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حامی تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اسلام آباد واقعے کی مزمت کرتے ہوئے الزام لگایا کہ ان حملوں میں امریکا کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔ اسلام آباد میں میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتےہوئے عمران خان نے کہا، "سیز فائر کے بعد حکومت کو سکیورٹی فورسزز کو اور طالبان کو مل کر اب ان لوگوں کو الگ کرنا چاہیے جو کہ غیر ملکی حمایت یافتہ ہیں جو کہ چاہتے ہیں کہ پاکستان تباہ ہو۔ دہشتگردی ہو ۔ مذاکرات کا مطلب ہی یہ تھا کہ کہ آپ ان لوگوں کو الگ کریں جو صرف اور صرف پاکستان کو تباہ کرنے کے لئے لڑ رہے ہیں"۔

دریں اثنا ء اسلام آباد کچہری میں دہشتگردانہ حملے کا مقدمہ تھانہ مارگلہ میں نامعلوم افراد کے خلاف درج کر لیا گیا ہے۔ اس حملے کی تفتیش کے لئے اسلام آباد پولیس نے دو تحقیقاتی ٹیمیں بھی تشکیل دی ہیں۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے بھی دہشتگردی کے اس واقع کا نوٹس لیتے ہوئے سیکرٹری داخلہ ،آئی جی اسلام آباد پولیس اور کمشنر اسلام آباد کو کل (منگل ) کے روز طلب کر لیا ہے۔