1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا حکومت کورونا کا ڈیٹا جمع کر پائے گی؟

عبدالستار، اسلام آباد
17 اپریل 2020

وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کے ليے مستند ڈیٹا کی اہمیت پر زور دیا ہے لیکن ماہرین اور سیاستدانوں کا خیال ہے کہ حکومتی رویے کے باعث يہ ممکن نہیں۔

https://p.dw.com/p/3b4Bg
Lockdown Peshawar Pakistan
تصویر: DW/Fareedullah Khan

پاکستان میں کووڈ انيس کے مریضوں کی حقيقی تعداد کے حوالے سے حالیہ دنوں میں شک و شبے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ چند اخبارات کی رپورٹوں نے بھی ايسے تاثرات کو مزيد طول دی۔ کچھ رپورٹوں ميں یہ دعویٰ کیا گیا کہ گزشتہ کچھ ہفتوں میں کراچی کے جناح اسپتال میں تین سو سے زائد افراد یا تو ہسپتال پہنچنے کے بعد دم توڑ گئے یا وہ پہلے ہی سے مردہ حالت میں لائے گئے۔ اور يہ کہ ايسے افراد کا پوسٹ مارٹم بھی نہیں کیا گیا، جس سبب حتمی طور پر یہ معلوم نہ ہو سکا کہ ان کی موت کی وجہ کیا تھی۔ فلاحی تنظيم ایدھی فاونڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی کے ايک بیان نے بھی ان شکوک و شہبات کو بڑھایا، جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی تنظیم نے کچھ ہفتوں میں تین سو سے زائد افراد کو غسل دیا۔

انگریزی روزنامہ ڈان کے مطابق وزیر اعظم نے ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ان خبروں اور فیصل ایدھی کے بیان کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ کورونا سے پیدا ہونے والی صورت حال سے نمٹنے کے ليے مستند ڈیٹا بہت اہم ہے۔ رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم نے مستند ڈیٹا مرتب کرنے کی ہدایت بھی دی۔

دوسری جانب ناقدین کے خیال میں مصدقہ معلومات جمع کرنے کے ليے کئی ايسے اقدامات کرنے پڑیں گے، جن میں حکومت ممکنہ طور پر سنجیدہ نہیں۔ پاکستان میں ڈاکٹرز کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن، جسے پی ایم اے کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کا خیال ہے کہ کئی ایسے فوری اقدامات ہیں، جن کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔ پی ایم اے سے وابستہ ڈاکٹر عبدالغفور شورو نے اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''کراچی کے ہسپتالوں میں غیر معمولی نمبر میں لاشیں آنے سے لوگوں میں اضطراب تو ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیسے پتہ چلے گا کہ مرنے والا کیسے مرا؟ اس کے ليے آپ کو پوسٹ مارٹم کے ليے عملہ چاہیے۔ جس کا آپ پوسٹ مارٹم کر رہے ہیں، اس کا پتا نہیں کہ وہ کووڈ انيس سے مرا ہے یا نہیں۔ اس کے تعين کے ليے آپ کو تربیت یافتہ طبی عملہ چاہیے۔ حکومت يا تو فوراً تربیت یافتہ اسٹاف لائے یا پھر ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو تربیت دے۔‘‘

ڈاکٹر عبدالغفور شورو کا مزید کہنا تھا کہ ٹیسٹنگ کی سہولیات کو بھی بڑھایا جانا جائے۔ ''ہم بہت محدود پیمانے پر ٹیسٹنگ کر رہے ہیں، جس سبب ہمیں متاثرين کی درست تعداد پتا نہیں چل رہی۔ اس کے علاوہ ملک کے ہسپتالوں میں طبی عملے کی بھی شديد کمی ہے، جسے پورا کرنا ضروری ہے۔‘‘

چند ناقدین کا خیال ہے کہ حکومت شروع ہی سے وبا کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی۔ پلاننگ کمیشن کے سابق سیکریٹری اور ماہر شماریات فضل اللہ قریشی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ٹیسٹنگ کٹس کی کمی ہے۔''وفاقی حکومت نے سندھ کو چار ہزار ناکارہ کٹس فراہم کيں۔ ٹیسٹنگ کی صورت حال یہ ہے کہ تفتان سے ایک مرحلے پر بارہ سو افراد کے قریب سندھ پہنچے، ان میں سے اکثر کو ٹیسٹ ہی نہیں کیا گیا اور سکھر پہنچنے پر ان میں سے بہت کے ٹيسٹ مثبت آئے۔ وفاقی حکومت ٹیسٹنگ بڑھانے کی کوشش نہیں کر رہی، تو ایسے میں کس طرح آپ مستند ڈیٹا جمع کر سکتے ہیں؟‘‘

فضل اللہ قریشی نے تجویز پیش کی کہ ٹیسٹنگ کو تیز کرنے کے ليے موبائل لیبارٹریز قائم کی جانی چاہييں۔ ''ہمارے پاس جراثیم کی سمجھ بوجھ رکھنے والے ماہرین بھی نہیں ہیں۔ فوراً ایسے ماہرین بھرتی کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈیٹا جمع کرنے کے ليے افرادی قوت بھی بڑھانی پڑے گی۔‘‘

ورلڈ بینک کے مختلف منصوبوں سے وابستہ رہنے والے عامر حسین کا کہنا ہے کہ حکومت کو اس مسئلے پر سختی بھی دکھانی پڑے گی۔ ''کورونا کی خوف کی وجہ سے لوگ خود آگے آ کر نہیں کہہ رہے کہ انہیں کوئی مرض ہے۔ اس کے علاوہ تبلیغی جماعت کے لوگ بھی ٹیسٹ کرانا نہیں چاہتے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ انہیں پھر پندرہ دن ایک جگہ رکنا پڑے گا۔ تو ٹیسٹنگ کو لازمی قرار دیا جانا چاہیے اور حاليہ ہفتوں میں ہسپتالوں میں مرنے والے افراد کا مکمل پتہ لگایا جائے کہ ان کی موت کی وجہ کیا ہے۔‘‘

لاک ڈاؤن میں نرمی یا سختی؟

دريں اثناء حزب اختلاف کی جماعتيں حکومت پر خوب تنقید کر رہی ہيں۔ پاکستان مسلم لیگ نون کے رہنما سینیٹر مشاہد اللہ خان کا کہنا ہے کہ ملک میں کم ٹیسٹنگ کی ایک وجہ ٹیسٹنگ کٹس کا غائب ہونا ہے۔ ''حکومت کے لوگوں پر الزام ہے کہ انہوں نے ٹیسٹنگ کٹس اور ماسکس کو اسمگل کیا۔ پہلے حکومت یہ ڈیٹا جمع کرے کے کتنی کٹس اور ماسک اسمگل کيے گئے اور کس نے کيے۔‘‘ مشاہداللہ خان کا مزید کہنا تھا کہ نہ حکومت کورونا سے نمٹنے میں سنجیدہ ہے اور نہ ہی ڈیٹا جمع کرنے میں۔ ''حکومت وبا پر توجہ دینے کے بجائے سندھ حکومت، اپوزیشن اور میڈیا سے لڑ رہی ہے۔ آپ ایسے بحران پر قابو نہیں پا سکتے۔ مجھے تو آگے تباہی ہی تباہی نظر آرہی ہے کیونکہ حکومت کی غیر سنجیدگی کی وجہ سے آنے والے دنوں میں کووڈ انيس کے کیسز بہت بڑھیں گے۔‘‘

اس کے برعکس حکمران جماعت پی ٹی آئی کا دعوی ہے کہ وہ کورونا کے مسئلے کو سنجیدگی سے ليا جا رہا ہے اور ڈیٹا کو بھی احسن طریقے سے جمع کیا جائے گا۔ کے پی سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی محمد اقبال خان آفریدی نے اس مسئلے پر اپنا موقف دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''کورونا کے حوالے سے معلومات جمع کرنے کے ليے کے پی سمیت پورے ملک میں سینٹرز بنائے جا چکے ہیں۔ اب ان سے اطلاعات لے کر ہم ڈیٹا مرتب کریں گے۔ وزیر اعظم جو کہتے ہیں کر کے دکھاتے ہیں۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ جو یہ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا، وہ حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کر رہے ہیں۔ ''وہ یہ دیکھیں کہ ہم نے ملک بھر میں قرنطینہ مراکز بنائے، لاک ڈاؤن نافذ کیا، کمانڈ اینڈ کنڑول سینٹر بنایا اور اس کے علاوہ بندشوں سے متاثرہ لاکھوں لوگوں کی مالی مدد بھی کی۔ کیا یہ سب اقدامات ہماری سنجیدگی کا مظاہرہ نہيں کرتے؟‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید