1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کيا ’انتہا پسند رجحانات‘ کے خاتمے کے ليے پروگرام کارآمد رہيں گے؟

عاصم سليم17 نومبر 2014

آج کل دنيا کے کئی ممالک ميں متعدد پروگراموں کے ذريعے ايسے تجربات کيے جا رہے ہيں، جن کی مدد سے انتہا پسند رجحانات و خيالات کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔ تاہم متعلقہ ماہرين ايسے تجربات کی کاميابی کے حوالے سے تحفظات کا شکار ہيں۔

https://p.dw.com/p/1Dogv
تصویر: Getty Images/K. Cucel

ان دنوں بيشتر ممالک ميں نوجوانوں کو ’جہاد‘ کی طرف راغب کيے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ ہزاروں کی تعداد ميں لڑکے انٹرنيٹ اور ديگر ذرائع سے ’پراپگنڈا‘ کا حصہ بن کر شام اور عراق جيسے ملکوں کا رخ کر رہے ہيں۔ يہ معاملہ قومی اور بين الاقوامی سطح پر حکومتوں کے ليے مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اسی وجہ سے کئی ممالک ميں شام اور عراق جيسے مسلح تنازعات سے وطن واپس لوٹنے والے نوجوانوں کی بحالی کے ليے پروگرام چلائے جا رہے ہيں تاکہ وہ اپنے آبائی ملکوں کی قومی سلامتی کے ليے مسائل کھڑے نہ کريں۔

اس سلسلے ميں اٹھائے جانے والے اقدامات ميں يورپی ملک ڈنمارک سر فہرست ہے۔ وہاں ايسے ہی ايک ’پائلٹ پروگرام‘ کا آغاز 2009ء ميں کيا گيا تھا۔ پروگرام کے تحت جہاد سے واپس وطن لوٹنے والے نوجوان نسل کے لوگوں کو جيل بھيجنے کی بجائے انہيں ’کونسلنگ‘ يا مشاورت، ملازمت اور يونيورسٹی ميں پڑھائی کے مواقع فراہم کيے جاتے ہيں۔ ڈينش حکام نے ايسے افراد کی شناخت کے ليے کہ جو معاشرے کے ليے مسئلہ بن سکتے ہيں يا جنہيں مدد کی ضرورت ہے، پوليس اہلکاروں و اساتذہ کے علاوہ سوشل سروس کے شعبے سے منسلک رضاکاروں اور مذہبی رہنماؤں کی مدد حاصل کر رکھی ہے۔

امريکا نے اتحادی ممالک کے ہمراہ اسلامک اسٹيٹ کے خلاف کارروائی جاری رکھی ہوئی ہے
امريکا نے اتحادی ممالک کے ہمراہ اسلامک اسٹيٹ کے خلاف کارروائی جاری رکھی ہوئی ہےتصویر: Getty Images/K. Cucel

ڈنمارک کے علاوہ اسی طرز کے تجربات انڈونيشيا، بھارت اور برطانيہ ميں بھی جاری ہيں، جن کے ذريعے حکام يہ کوشش کر رہے ہيں کہ نرم طريقہ کار کے ذريعے پر تشدد انتہا پسندی کا طويل المدتی بنيادوں پر خاتمہ ممکن بنايا جا سکے۔

اس طرح کا پہلا پروگرام سعودی عرب ميں 2007ء ميں شروع کيا گيا تھا، جس کے تحت پر تشدد کارروئيوں کو ترک کر دينے والوں کو ماہانہ پينشنوں، اپارٹمنٹس، موٹر گاڑی اور شادی کرنے کی صورت ميں بيس ہزار ڈالر نقد جيسے ’انعامات‘ سے نوازا جاتا ہے۔ مذہبی رہنماؤں کی طرف سے مہيا کی جانے والی تعليم يا مشاورت بھی اس پروگرام کا ايک اہم حصہ ہے۔

تمام تر کوششوں کے برعکس انسداد دہشت گردی سے متعلق چند ماہرين نے اس حوالے سے خدشات کا اظہار کيا ہے کہ آيا ايسے پروگرام اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل کر پائيں گے۔ اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر ايک فرانسيسی ماہر نے نيوز ايجنسی اے ايف پی کو بتايا، ’’ہميں واضح طور پر سوچنا چاہيے، اس وقت ڈی ريڈيکلائزيشن کار آمد نہيں۔‘‘ اس اہلکار کے بقول فرانس اور اس کے ديگر مغربی اتحادی ممالک انتہا پسند رجحانات کے خاتمے کے ليے ديگر ممالک ميں جاری پروگراموں کا جائزہ لے رہے ہيں اور ان پروگراموں کے نتائج کچھ زيادہ حوصلہ افزاء نہيں۔

يہ امر اہم ہے کہ متعلقہ ماہرين ميں ان پروگراموں کی کاميابی کے حوالے سے پائے جانے والے شکوک و شبہات کے نتيجے ميں کئی ممالک اب سخت تر لائحہ عمل اختيار کر رہے ہيں۔ حال ہی ميں برطانوی وزير اعظم ڈيوڈ کيمرون نے اعلان کيا ہے کہ برطانيہ سے تعلق رکھنے والے جہاديوں کی وطن واپسی اس وقت تک ممنوع رہے گی، جب تک کہ وہ سخت شرائط کو پورا کرنے کی حامی نہ بھر ليں۔ فرانس ميں بھی ابھی پچھلے ہی دنوں چوبيس سالہ فلاوين موريو کو بيرون ملک جہاد کا حصہ بننے پر سات برس قيد کی سزا سنا دی گئی تھی۔