1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کوسووو اور سربیا کے درمیان ’تاریخی معاہدہ‘

20 اپریل 2013

سربیا اور کوسووو کے درمیان باہمی تعلقات کو معمول پر لانے کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔ فریقین کے درمیان بات چیت میں یورپی یونین نے ثالث کا کردار ادا کیا۔

https://p.dw.com/p/18Jjc
تصویر: REUTERS

یورپی یونین کی ثالثی میں ہونے والی بات چیت کا مقصد دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی کا خاتمہ تھا۔ یہ معاہدہ کوسووو کی جانب سے پانچ سال قبل یکطرفہ طور پر سربیا سے علیحدگی کا اعلان کرنے کے بعد طے پایا ہے۔

اس بات چیت کی قیادت یورپی یونین کی سربراہ برائے خارجہ امور کیتھرین ایشٹن نے کی، جنہوں نے جمعہ 19 اپریل کو معاہدہ طے پا جانے پر کہا: ’’یہ مذاکرات اختتام کو پہنچ گئے ہیں۔ دونوں (ملکوں کے) وزرائے اعظم نے معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔‘‘

ایشٹن کا مزید کہنا تھا: ’’ہم جو دیکھ رہے ہیں وہ ایک قدم ہے ماضی کو پیچھے چھوڑنے کا، اور ایک قدم ہے جو دونوں کو یورپ کے مزید قریب لے آیا ہے۔‘‘

سربیا اور کوسووو کے درمیان تعلقات کی بہتری کو یورپی یونین میں ان کی رکنیت کے تناظر میں بھی دیکھا جاتا ہے اور یہ معاہدہ اس تناطر میں بھی اہم خیال کیا جا رہا ہے۔

خبر رس‍اں ادارے روئٹرز کے مطابق 14 نکاتی معاہدے کے تحت کوئی بھی فریق یورپی یونین کی رکنیت کے لیے دوسرے کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گا۔

EU Außenpolitik Ashton, Dacic und Thaci in Brüssel
کیتھرین ایشٹن کوسووو اور سربیا کے وزرائے اعظم کے ساتھتصویر: REUTERS

یورپی کمیشن اور مغربی دفاعی اتحاد نیٹو نے ان دونوں ملکوں کے درمیان اس معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے۔ یورپی کمیشن کے صدر یوزے مانویل باروسو نے اس معاہدے کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کوسووو کے وزیر اعظم ہاشم تھاچی اور ان کے سرب ہم منصب ایویچا ڈاڈچ کو مبارکباد دی ہے۔

انہوں نے کہا: ’’میں پر اعتماد ہوں کہ فریقین کے درمیان جو معاہدہ طے پایا ہے، وہ سربیا اور کوسووو کے لیے یورپی یونین کی رکنیت کے حوالے سے آئندہ کے فیصلوں میں مددگار رہے گا۔‘‘

1998-99ء کی جنگ کے بعد سربیا نے کوسووو کا کنٹرول کھو دیا تھا، جو اس کا ایک صوبہ تھا۔ اس وقت کوسووو کی اکثریتی البانوی آبادی پر سرب حملوں کو روکنے کے لیے نیٹو نے مداخلت کی تھی۔ اس وقت سے کوسووو کو خود اختیاری حاصل تھی جبکہ 2008ء میں اس نے آزادی کا اعلان کر دیا تھا۔ اس وقت بھی کوسووو فورس (KFOR)کے تحت نیٹو کے تقریباﹰ پانچ ہزار فوجی خطے موجود ہیں۔

نیٹو کے سیکرٹری جنرل آندرس فوگ راسموسن نے اس معاہدے کے ردِ عمل میں کہا ہے: ’’جیسے ہم نے ماضی میں کیا اور بالخصوص کوسووو فورس اپنے مینڈیٹ کے تحت اس تازہ معاہدے کے نفاذ میں معاونت کے لیے تیار رہے گی۔‘‘

ng/aba (AFP, dpa, Reuters)