Vergessener Krieg
26 جولائی 2013کوریائی جنگ میں نہ تو کسی فریق کو شکست ہوئی اور نہ ہی کوئی ملک اس معرکے میں کامیابی حاصل کر سکا۔ اس جنگ کو ختم ہوئے ساٹھ برس گزر چکے ہیں لیکن ابھی بھی یہ دونوں ممالک کشیدگی کی حالت میں ہیں۔ شمالی کوریا کے آمر کم ال سونگ نے جنوی کوریا کا نظام اپنے ہاتھوں میں لینے کے لیے 25 جون 1950ء کو اس ملک پر چڑھائی کر دی تھی۔ سابقہ سوویت یونین اور چین کی حمایت کی بدولت جنگ شروع ہونے کے صرف تین روز بعد ہی کمیونسٹ کوریا کے دستوں نے جنوبی حصے کے دارالحکومت سیول پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس دوران جنوبی کوریا کے دستوں اور ان کے امریکی ساتھیوں کو مختلف محاذوں پر پسپائی کا سامنا کرنا پڑا اور متعدد امریکی فوجی جنگی قیدی بن گئے تھے۔
تیس جولائی 1950ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اپنے اجلاس کے دوران سابقہ ویٹو طاقت سوویت یونین کی غیر حاضری میں کوریائی تنازعے میں مداخلت کا فیصلہ کیا۔ سلامتی کونسل نے شمالی کوریا پر امن تباہ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے دستے روانہ کر دیے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جزیرہ نما کوریا کے حالات تبدیل ہونا شروع ہو گئے اور شمالی کوریا کی پیش قدمی کا سلسلہ تھم گیا۔ جواب میں پیونگ یانگ سمیت شمالی کوریا کے متعدد علاقے اتحادیوں کے زیر قبضہ چلے گئے۔ پھر چین کی جانب سے ایک بڑی کارروائی کے بعد شمالی کوریا کو اس کے علاقے واپس مل گئے۔ دس جولائی1951ء کو جنگ بندی کے لیے مذاکرات شروع ہوئے اور بالآخر دو سال بعد 27 جولائی کو معاملات طے پا گئے۔
اس جنگ میں عام شہریوں، خواتین اور بچوں کی ایک بڑی تعداد ہلاک ہوئی۔ پیونگ یانگ اور سیول مکمل طور پر تباہ ہو گئے تھے۔ تاریخ دان رولف شٹائی ننِگر کے مطابق بمباری کا یہ عالم تھا کہ1951ء کے اواخر میں امریکی پائلٹوں نے یہ شکایات کی تھیں کہ شمالی کوریا میں اب کوئی ایسی چیز نہیں بچی ہے، جسے وہ ہدف بنا سکیں۔
تاریخ دان اور کوریائی امور کے ماہر رولف شٹائی ننگر کے بقول اس جنگ میں طوالت کے ذمہ دار سوویت آمر جوزیف اسٹالن تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ چینی رہنما ماؤ زے تنگ اور شمالی کوریا کے آمر کم ال سونگ اس جنگ کو بہت پہلے ہی ختم کرنا چاہتے تھے لیکن اسٹالن نے انکار کر دیا۔ شٹائی ننگر کے بقول اسٹالن امریکی افواج اور جنوبی کوریا کو زیادہ سے زیادہ جانی نقصان پہنچانا چاہتے تھے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اگر پانچ مارچ 1953ء کو اسٹالن کا انتقال نہ ہوتا تو شاید فریقین کے مابین فائر بندی کا سمجھوتہ بھی طے نہ ہو پاتا۔
ان ساٹھ برسوں کے دوران جنوبی اور شمالی کوریا نے تناؤ کم کرنے کی متعدد کوششیں کی ہیں لیکن ہر بار معاملات معمول پر آنے سے قبل کوئی نہ کوئی واقعہ مصالحت کی تمام کوششوں پر پانی پھیر دیتا ہے۔