کوریائی جنگ کے ساٹھ برس
جزیرہ نما کوریا پر جنگ تین سالوں تک جاری رہی۔ اس دوران اقوام متحدہ اور امریکا نے جنوبی کوریا کا جب کہ چین اور سابقہ سوویت یونین نے شمالی کوریا کا ساتھ دیا۔ جنگ کے اختتام پر تقریباً پچاس لاکھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
تین سالہ جنگ کا آغاز
شمالی کوریا کی فوجیں 25 جون 1950ء کو جنوبی کوریا میں داخل ہو گئی تھیں۔ جنگ شروع ہونے کے چند دنوں بعد ہی جنوبی کوریا کے تقریبًا تمام حصے پر کمیونسٹ کوریا کی فوجیں قابض ہو چکی تھیں۔ تین سال جاری رہنے والی اس جنگ میں تقریباً 4.5 ملین افراد جاں بحق ہوئے تھے۔
جنگ سے پہلے کی تاریخ
جزیرہ نما کوریا 1910ء سے لے کر 1945ء تک جاپان کے قبضے میں رہا اور دوسری عالمی جنگ کے بعد سے منقسم چلا آ رہا ہے۔ شمال کا حصہ سوویت کنٹرول میں چلا گیا جب کہ جنوبی حصے پر امریکی دستے قابض ہو گئے۔ اگست 1948ء میں جنوبی حصے میں ری پبلک کوریا کے قیام کا اعلان کر دیا گیا جب کہ اس کے رد عمل میں جنرل کم ال سونگ نے نو ستمبر کو عوامی جمہوریہ کوریاکی بنیاد رکھ دی۔
اقوام متحدہ کا کردار
شمالی کوریا کی جانب سے سرحدی حدود کی خلاف ورزی کے بعد امریکا اور اقوام متحدہ نے فوری طور پر جنوبی کوریا کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ بیس ممالک کے چالیس ہزار فوجیوں کو جنوبی کوریا روانہ کیا گیا، ان میں امریکی فوجیوں کی تعداد 36 ہزار تھی۔
آپریشن ’ Chromite‘
15ستمبر 1950ء کو امریکی جنرل ڈگلس مک کارتھر کی قیادت میں اتحادی دستے ساحلی علاقے ’ Incheon ‘ پہنچے اور اس کے کچھ ہی گھنٹوں بعد سیول دوبارہ سے جنوبی کوریا کے زیر قبضہ آ چکا تھا۔
ماؤ کے دستوں کی مدد
1950ء کے اکتوبر میں چین کی جانب سے اس تنازعے میں باقاعدہ مداخلت کی گئی۔پہلے چھوٹے چھوٹے گروپوں کی صورت میں اور بعد ازاں رضاکاروں کا ایک بہت بڑا دستہ شمالی کوریا کی مدد کو پہنچا۔پانچ دسمبر کو پیونگ یانگ اتحادی فوجوں سے آزاد کرا لیا گیا۔
جوابی کارروائی
جنوری 1951ء میں چین اور شمالی کوریا نے مل کر ایک بڑی پیش قدمی شروع کی۔ اس میں چار لاکھ چینی اور شمالی کوریا کے ایک لاکھ فوجی شامل تھے۔ اس دوران شمالی کوریا کو بڑی کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ امریکا نے چین پر جوہری بم سے حملہ کرنے کی تجویز کو بھی مسترد کر دیا۔
تھکاوٹ کا شکار
1951 ءکے آخر میں جنگ اسی مقام پر پہنچ چکی تھی، جہاں سے اس کی ابتدا ہوئی تھی یعنی فریقین جنگ سے پہلے والی پوزیشنوں میں اپنی اپنی سرحدوں میں موجود تھے۔ جولائی 1951ء میں فائر بندی مذاکرات شروع ہونے کے باوجود 1953ء کے موسم سرما تک دونوں وقفے وقفے سے ایک دوسرے کو نشانہ بناتے رہتے تھے۔
دو نظاموں کی جنگ
کوریائی جنگ کو سرد جنگ کے دوران مشرق اور مغرب کے درمیان پہلی پراکسی وار کہلاتی ہے۔ اقوام متحدہ کے دستوں میں امریکی فوجیوں کی تعداد سب سے زیادہ تھی جب کہ دوسری جانب شمالی کوریا کی پشت پناہی کے لیے چین اور روس کے لاکھوں سپاہی موجود تھے۔
بے پناہ تباہی
اس جنگ میں امریکی افواج نے ساڑھے چار لاکھ ٹن بارود استعمال کیا۔ بمباری کا یہ عالم تھا کہ1951ء کے اواخر میں امریکی پائلٹوں نے یہ شکایات کی تھیں کہ شمالی کوریا میں اب کوئی ایسی چیز نہیں بچی ہے، جسے وہ ہدف بنا سکیں۔ شمالی کوریا کے تقریباً تمام بڑے شہر ملبے کا ڈھیر بن چکے تھے۔
لاکھوں افراد ہلاک
1953ء میں جب اتحادی دستوں کا انخلاء شروع ہوا تو اس وقت تک کئی لاکھ افراد موت کے منہ میں جا چکے تھے۔ اس دوران اندازہ لگایا جاتا ہے شمالی اور جنوبی کوریا کے ملا کر پانچ لاکھ فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ چار لاکھ چینی فوجی اور اس جنگ کے دوران مرنے والے اتحادی فوجیوں کی تعداد چالیس ہزار بتائی جاتی ہے۔
جنگی قیدیوں کا تبادلہ
1953ء میں اپریل کے وسط اور مئی کے آغاز میں فریقین کے مابین قیدیوں کا پہلی مرتبہ تبادلہ ہوا اور اسی سال کے اختتام تک تبادلے کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ اقوام متحدہ کی جانب سے شمالی کوریا کے پچہتر ہزار اور تقریباً سات ہزار چینی قیدیوں کو رہا کیا گیا۔ دوسری جانب سے ساڑھے تیرہ ہزار قیدی رہا کیے گئے، جن میں تقریباً آٹھ ہزار جنوبی کوریا کے تھے۔
فائربندی سمجھوتہ
دس جولائی1951ء کو جنگ بندی کے لیے مذاکرات شروع ہوئے اور بالآخر دو سال بعد 27 جولائی کو معاملات طے پا گئے۔ تاہم اس سمجھوتے پر دستخط نہیں نہ ہونے کی وجہ سے دونوں ممالک ابھی تک حالت جنگ میں ہیں۔
ساٹھ سال بعد بھی دشمن
اس جنگ کو ختم ہوئے ساٹھ برس گزر چکے ہیں لیکن ابھی بھی یہ دونوں ممالک کشیدگی کی حالت میں ہیں۔ ان دونوں ممالک کے درمیانی سرحد کی نگرانی انتہائی سخت ہے۔ ابھی بھی سرحد کے اطراف دونوں ملکوں کے سپاہی چوکنا کھڑے ہوتے ہیں۔