1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہجرمنی

کورونا دور میں جرمن شہری موٹے ہوگئے

10 دسمبر 2020

جرمنی میں گزشتہ تقریبا ایک برس کے لاک ڈاؤن جیسی بندشوں کے دوران گھر سے کام کرنے کی وجہ سے لوگ موٹے ہونے لگے ہیں۔ ملک میں صحت سے متعلق ایک نئی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ وبا کے بعد سے لوگوں کا وزن بڑھ گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3mVl1
Deutsche Wörter zu Weihnachten Hüftgold
تصویر: Colourbox

گزشتہ برس موسم بہار میں جرمنی میں لاک ڈاؤن جیسی بندشوں کے نفاذ کے بعد سے ہی جرمن شہریوں میں موٹاپے میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ بات جرمنی میں امراض اور صحت سے متعلق اہم سائنسی ادارے رابرٹ کوخ انسٹی ٹیوٹ کی ایک نئی تحقیق سے سامنے آئی ہیں۔ ادارے کی یہ نئی تحقیق بدھ نو دسمبر کو شائع ہوئی ہے۔   

اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مہلک کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے سد باب کے لیے جو تدابیر اور اقدامات کیے گئے، ان کے جرمن شہریوں کی صحت پر کس طرح کے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ اس برس اپریل اور اگست کے درمیان جرمن شہریوں کا اوسطاًتقریبا ایک کلو وزن بڑھ گیا۔

یہ بھی پڑھیے: کیا موٹی لڑکیاں انسان نہیں ہوتیں؟

اس رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس کی وبا میں لاک ڈاؤن جیسی بندشوں کے دوران جہاں لوگوں کی روز مرہ کی طرز زندگی میں تبدیلیاں آئیں وہیں غیر صحت مند غذائی اشیاکے کھانے میں بھی اضافہ ہوا اور اسی وجہ سے لوگوں کا وزن بڑھنے لگا۔

ڈاکٹروں کے پاس بھی جانا کم ہوا 

رابرٹ کوخ انسٹی ٹیوٹ کی اس تازہ رپورٹ کے مطابق موسم بہار کے پہلے لاک ڈاؤن کے دوران لوگوں کا ڈاکٹروں کے پاس علاج کے لیے بھی آنا جانا کم ہوا، جس میں عام ڈاکٹروں کے ساتھ ساتھ خصوصی امراض کے ماہر ین بھی شامل ہیں۔

اس اسٹڈی کے مطابق جرمن شہریوں نے اس دوران بظاہر، ''طبی سروسز کے استعمال کو بھی کافی حد تک ترک ہی کر دیا تھا۔'' جرمن اسپتالوں نے بھی کووڈ 19 کے مریضوں کی تعداد میں اضافے کے پیش نظر، تاکہ اسپتالوں میں جگہ کی قلت نہ ہونے پائے،  اپنی بہت سی معمول کی سرگرمیوں کو بھی مؤخر کر دیا تھا۔

اس سروے کے لیے جرمنی میں اس برس اپریل سے ماہ ستمبر کے دوران  15 برس سے اوپر کے تقریباً 23 ہزار افراد سے فون پر بات چیت کی گئی۔اس تحقیق سے ان ابتدائی خدشات کی تصدیق نہیں ہو پائی کہ وبائی مرض یا پھر اس پر قابو پانے کے اقدامات نفسیاتی عوارض میں اضافے کا باعث بنے یا نہیں۔

مزید پڑھیے: جرمن بچے سال بھر کی چینی سات ماہ میں کھا گئے: ماہرین پریشان

 تحقیق میں کہا گیا ہے، ''عام آبادی میں افسردگی کی علامات یا پھر گھریلو سطح پر جو حمایت یا پھر مدد حاصل ہوتی ہے، اس میں کوئی خاص فرق نہیں پایا گیا۔'' تاہم رابرٹ کوخ انسٹی ٹیوٹ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ملک میں صحت کی مجموعی صورتحال سے متعلق ایک حتمی تصویر اب بھی دستیاب نہیں ہے اور اس کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق اس دوران لوگوں کے سگریٹ پینے کی عادت میں بھی کمی آئی ہے تاہم یہ بات واضح نہیں ہے کہ آیا وبا کے پیش نظر کمی آئی یا پھر کوئی اور وجہ ہوسکتی ہے۔ 

ص ز/  ج ا (اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں