1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کورونا لاک ڈاؤن، کیا جرمنی میں جلد تمام پہیے رُک جائیں گے؟

23 اکتوبر 2020

رواں ہفتے جرمنی میں کورونا وائرس کے نئے کیسز میں ریکارڈ اضافے کے ساتھ کورونا کی دوسری لہر سے نمٹنے کے لیے دوسرے لاک ڈاؤن کے امکانات بہت بڑھ گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3kKBX
Symbolfoto Maskenpflicht auf öffentlichen Plätzen Düsseldorf
تصویر: Geisler-Fotopress/picture-alliance

وبائی امراض پر ریسرچ کرنے والے برلن کے مشہور زمانہ رابرٹ کاخ انسٹیٹیوٹ نے اس ہفتے کورونا وائرس کے پھیلاؤ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماری کووڈ انیس کے مریضوں کی تعداد میں تشویش ناک اضافے کی نشاندہی کی۔ اس صورتحال سے یہ امر واضح ہوتا جا رہا ہے کہ  یورپ کے دیگر ممالک کی طرح جرمنی بھی پابندیوں میں مزید سختی اور ممکنہ طور پر دوسرے لاک ڈاؤن کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اب ماہرین اس امر پر غور کر رہے ہیں کہ آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں جو صورتحال سامنے آئے گی، اس سے موسم بہار تک عوامی زندگیوں پر مزید کیا فرق رونما ہو سکتا ہے؟

عوام کی حوصلہ افزائی

رابرٹ کاخ انسٹیٹیوٹ کے صدر لوتھر وائلر نے جمعرات کو گزشتہ 24 گھنٹوں میں کووڈ۔19 کے 11200 نئے کیسز درج کیے جانے کی خبر دیتے ہوئے کہا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ جرمنی میں کسی ایک دن میں کورونا وائرس کے 10000 سے زائد کیسز درج ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود لوتھر وائلر کا کہنا تھا،''کورونا کیسز کی تعداد میں اتنا بڑا اضافہ جرمنی میں اس سے پہلے ناقابل تصور تھا۔ تاہم اس وقت ہمارے پاس وائرس کے مزید پھیلاؤ کو کم کرنے کا موقع ہے۔ اس میں ہم ابھی بے اختیار نہیں ہیں۔‘‘ وائلر نے زور دے کر کہا کہ ہر شہری قوانین کی پاسداری کو یقینی بناتے ہوئے انفکشن کے خطرے کو نمایاں طور پر کم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ انہوں نے حفاظتی اقدامات کے کلیدی اصولوں کو ایک بار پھر دھراتے ہوئے کہا کہ،''وبائی امراض کے خلاف جنگ میں ماسک پہننے، سماجی فاصلہ برقرار رکھنے اور ہاتھ دھوتے رہنا مرکزی اہمیت کے حامل عوامل ہیں۔‘‘

Deutschland Polizei durchsucht Moschee in Berlin
برلن میں ایک مسجد کے باہر کورونا کی احتیاطی تدابیر کے کنٹرول کے لیے پولیس تعینات۔تصویر: Christoph Soeder/dpa/picture-alliance

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت یعنی موسم خزاں میں اس طرح کے اقدامات جرمن سیاست کا اہم ترین مقصد بن چکا ہے۔ رواں برس کے موسم بہار کی نسبت انفکشن کی تعداد میں اضافے کو روکنے کے لیے ہر کوئی تیار ہے۔ اب ماہرین اس وائرس کو بخوبی پہچان چُکے ہیں۔ مارچ ، اپریل میں جس وقت پہلا لاک ڈاؤن ہوا تھا تب اس بات کا بھی بے حد خوف پایا جاتا تھا کہ ہسپتالوں میں انتہائی نگہداشت کے یونٹس کی تعداد ضرورت سے کہیں کم ہے اور ان کی گنجائش تیزی سے اپنی آخری حد کو چھونے لگی ہے تاہم اس قسم کے خوف کو اب بے بنیاد سمجھا جانا چاہیے۔

 ٹوئلٹ پیپرز کی پھر سے قلت                                   

اگر جرمنی میں دوسرا لاک ڈاؤن ہوا بھی تو اس کی نوعیت پہلے والے سے مختلف ہوگی۔ ریستوران اور خوردہ اشیا کے اسٹورز کے ساتھ ساتھ ڈے کیئر سینٹرزاور اسکول ابتدائی طور پر کھلے رہیں گے تاہم کورونا انفکشن کی موجودگی اور اس میں اضافے کی شرح پر اس کا انحصار ہوگا۔ سماجی رابطے، پارٹیاں،اجتماعات وغیرہ تیزی سے محدود ہو جائیں گے۔ سب سے زیادہ اہمیت ' انفرادی ذمے داری ‘ کو حاصل ہوگی۔ کچھ اسٹورز کے مالکین کا کہنا ہے کہ ان کی دکانوں میں  ٹائلٹ پیپرز کی قلت ہوتی جا رہی ہے۔ اس وقت سُپر مارکیٹس اور ان کی چینز نے کہا تھا کہ حفظان صحت سے متعلق اشیاء کی ذخیرہ اندوزی کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ ان کی ترسیل میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ یہی صورتحال اب بھی پائی جاتی ہے۔

Schwul-lesbischer Weihnachtsmarkt "Christmas Avenue" in Köln
اس سال زیادہ تر کرسمس مارکیٹس نہیں لگیں گی۔ تصویر: DW/V.Weitz

کرسمس کی آمد پر یہ سب کچھ؟

تمام مغربی ممالک میں سب سے زیادہ پُر رونق تہوار کرسمس کا ہوتا ہے۔ اس کی تیاریاں ہفتوں پہلے سے شروع ہو جاتی ہیں۔ اس بار کا کرسمس کا ماحول مختلف ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ جرمنی کے وبائی امراض کی ریسرچ کا برلن میں قائم ریسرچ انسٹیٹیوٹ 'شیریٹے‘ کے ماہر وائرولوجسٹ کرسٹیان ڈروسٹن نے اس بار کرسمس کے آس پاس ایک عارضی لاک ڈاؤن کی بات کی ہے۔ انہوں نے ایک ٹویٹ میں تحریر کیا،'' اس سے ملتا جلتا برطانیہ کا ایک خیال قابل غور  ہے اور ممکن ہے کہ جرمنی کی سیاسی قیادت اس طرح کے اقدامات کرے۔ جرمنی میں زیادہ تر کرسمس مارکیٹس کا انعقاد  پہلے ہی منسوح کیا جا رہا ہے، اس سے عوام کے موڈ پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اور یہ کافی حد تک افسردہ ہوجائیں گے۔

ک م/ ع س/ ایجنسیاں               

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں