کوبالٹ کا لالچ، زندگیاں داؤ پر
کانگو کوبالٹ کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔ یہ دھات اسمارٹ فونز اور کاروں کی تیاری میں استعمال ہوتی ہے۔ مگر جہاں سے یہ دھات نکالی جاتی ہے وہاں زمین اور پانی آلودہ ہو جاتا ہے اور بیماریوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
کیپوشی کا زہریلا صحرا
کانگو کے جنوبی شہر کیپوشی کے قریب ایک مصنوعی صحرا موجود ہے۔ 1990ء کی دہائی تک یہاں ایک کان موجود تھی جس کی وجہ سے کئی کلومیٹر تک زمین بنجر ہو چکی ہے۔ کئی دہائیوں سے یہاں کچھ نہیں اگتا۔ دریا بھی زہریلا ہو چکا ہے۔ اس علاقے میں رہنے والوں کے نوزائیدہ بچوں میں پیدائشی خامیاں موجود ہیں۔
جسمانی نقائص والے اور مردہ بچوں کی پیدائش
ایک مقامی ہسپتال میں جسمانی نقائص کے ساتھ مثلاﹰﹰ کٹے ہوئے ہونٹ اور مڑے ہوئے پاؤں وغیرہ کے ساتھ اکثر بچے پیدا ہوتے ہیں۔ کیپوشی کے چارلس لیوانگا ہسپتال میں مارچ کے مہینے میں ہی تین ایسے بچے پیدا ہوئے جن کا دماغ نا مکمل تھا۔ عام طور پر ایسے بچے پیدائش کے فوری بعد مر جاتے ہیں۔ گائناکالوجسٹ ڈاکٹر الین کے مطابق یہاں کچھ غلط ہے مگر ہمارے پاس فنڈز نہیں ہیں کہ اس کی وجوہات پر تحقیق ہو سکے۔
لوگوں کی تکالیف میں کمی کے لیے تحقیق
کانگو کی یونیورسٹی آف لوبمباشی بلیجیم کی لیووین یونیورسٹی کے ساتھ مل کر اس امر پر تحقیق کر رہی ہے کہ کوبالٹ کی کان کُنی اور صحت سے متعلق مسائل کے درمیان کیا تعلق ہے۔ اس ریسرچ گروپ کے ایک رُکن ٹونی کیامبے کے مطابق، ’’ہمیں یہاں کی صورتحال سے لوگوں کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے اور زہریلا مواد ہمیں بیمار کر رہے ہیں۔‘‘
کوبالٹ کے سبب قبل از وقت پیدائشں
کیپوشی کے سینٹ چارلس لووانگا ہسپتال میں یہ دونوں بچے قبل از وقت پیدا ہوئے ہیں۔ یونیورسٹی آف لوبمباشی کے ریسرچر ٹونی کایامبے کے مطابق، ’’ہمیں شبہ ہے کہ اس علاقے میں قبل از وقت پیدائشوں کی وجہ دھاتوں کی آلودگی ہے جیسے کہ کوبالٹ۔‘‘ کیپوشی کے رہائشیوں کی اکثریت کوبالٹ کی کانوں میں کام کرتی ہے۔
ماسینگو خاندان کے بیمار بچے
ایڈیلے ماسینگو اپنے پانچ بچوں کے ساتھ۔ ان کے شوہر کوبالٹ کی ایک کان میں کام کرتے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی بیٹی 12 سال کی عمر میں نابینا ہو گئی۔ ان کا ایک بچہ پیدائشی نقائص کے ساتھ پیدا ہوا اور پیدائش کے فوری بعد مر گیا۔ کیا اس کی وجہ کان کُنی ہے، انہیں اس کی خبر نہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’جب میرے بچے پیدا ہوئے تو انہوں نے خون کے نمونے لیے مگر اس کے نتائج کبھی نہ ملے۔‘‘
کوبالٹ کی طلب میں تیزی سے اضافہ
اس کان کُن نے کوبالٹ کا ٹکڑا پکڑا ہوا ہے۔ دنیا بھر میں پیدا ہونے والی کوبالٹ کا 60 فیصد کانگو سے نکالا جاتا ہے۔ یہ نایاب دھات لیتھیم بیٹریوں کی تیاری میں استعمال ہوتی ہے جو اسمارٹ فونز، لیپ ٹاپس اور الیکٹرک کاروں میں میں استعمال ہوتی ہیں۔ تیزی سے بڑھتی طلب کے سبب اس کی قیمت گزشتہ دو سالوں کے دوران تین گنا ہو چکی ہے۔ کانوں میں کام کرنے والے مزدور کئی طرح کے زہریلے مادوں کا سامنا کرتے ہیں۔
کانگو کا تانبے کی کانوں کا علاقہ
GECAMINES کانگو کی سب سے بڑی کان کن کمپنی ہے۔ یہ ’’کاپر بیلٹ‘‘ کے نام سے جانے والے علاقے کے وسط میں واقع ہے۔ زیمبیا کی سرحد کے قریب اس علاقے میں کئی بین الاقوامی کمپنیاں موجود ہیں۔ ہر سال پانچ ہزار ٹن کوبالٹ نکالی جاتی ہے۔ شہر کے وسط میں موجود بڑی پہاڑی دراصل کان سے نکلنے والے ملبے سے بنی ہے۔
زہریلا پانی
مزدور آلودہ پانی میں سے کوبالٹ اور دیگر مادوں کو تلاش کر رہے ہیں۔ بہت سے لوگوں کے لیے صرف یہی ذریعہ معاش ہے۔ ایک مقامی رہاشی کے مطابق، ’’ہم اس پانی کو شاذ و نادر ہی استعمال کرتے ہیں۔ اس سے ہماری جلد پر عجیب سی تہہ رہ جاتی ہے۔ جب ہم اس پانی میں کپڑے دھوتے ہیں تو وہ خراب ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر ہم اس پانی میں آلوؤں کو رکھیں تو ان کا ذائقہ عجیب ہو جاتا ہے۔‘‘
ریفائنری کے قریب کی زندگی
کانگو کی ڈونگ فینگ مائننگ کے قریب رہائشی علاقہ بن گیا ہے۔ یہ کانگو میں کوبالٹ کی سب سے بڑی خریدار کمپنی ہے۔ جب بارش ہوتی ہے تو اس ریفائنری سے خارج ہونے والا پانی قریبی آبادی تک پہنچ جاتا ہے۔ اس پانی سے انہیں جلد کے مسائل ہوتے ہیں اور سانس کی تکلیف بھی۔ تاہم یہ کمپنی ان کی گزارشات سننے کو تیار نہیں۔
زہر سے بچاؤ کے لیے کوئی تحفظ نہیں
لوبمباشی کے یونیورسٹی ہسپتال میں ایک ماہر جلد ایک مریض کا معائنہ کر رہا ہے۔ کانگو میں زیادہ تر کان کُن تحفظ فراہم کرنے والے لباس کے بغیر ہی کام کرتے ہیں۔ کوبالٹ، کاپر اور نکل کے علاوہ کانوں میں اکثر یورينیئم بھی موجود ہوتی ہے۔ یہ ان کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔