کلیسائے روم اور ہٹلر کے فوجی افسران کا مبینہ گٹھ جوڑ؟
2 مارچ 2020ویٹیکن کی جانب سے پیر دو مارچ کو پہلی بار اس دور کی خفیہ دستاویزات منظر عام پر لائی جارہی ہیں۔ مؤرخین کا خیال ہے کہ لاکھوں دستاویزات پر مشتمل اس قیمتی تاریخی مواد سے واضح ہو جائے گا کہ انسانیت کے خلاف جرائم کے مرتکب نازی مجرموں کو بچانے میں خود کلیسائے روم کے سربراہ کا کردار کیا تھا۔
جرمنی میں اڈولف ہٹلر کی آمریت ختم ہونے کے بعد عام لوگوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھانے والے ہزاروں نازی فوجی اگلے چند برسوں میں خفیہ راستوں سے فرار ہو کر لاطینی امریکا کے متعدد ممالک میں پہنچ گئے تھے۔ تاریخ دانوں کے مطابق بے شمار انسانوں کے قتل میں ملوث ان مجرموں کے جرمنی سے بحفاظت فرار میں کیتھولک کلیسا کے عالمی مرکز ویٹیکن نے مدد فراہم کی تھی۔
ان میں ہٹلر کی طرف سے قائم کردہ یہودیوں کی قتل گاہوں کے کمانڈر فرانز شٹانگل بھی شامل تھا۔
دوسری جنگ عظیم میں نازی جرمنی کی شکست کے بعد شٹانگل کو جنگی جرائم کے الزامات کے تحت گرفتار کرکے آسٹریا کی ایک جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ لیکن تین سال بعد انیس سو اڑتالیس میں وہ وہاں سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔
وہ اٹلی کے مخلتف شہروں سے ہوتا ہوا روم پہنچا، جہاں ویٹیکن سٹی میں ایک سرکردہ بشپ اس کے استقبال کے لیے منتظر تھے۔ بشپ آلُوآ ہُڈال کا تعلق بھی آسٹریا سے تھا۔ وہ کلیسائی معاملات میں خاصے بااثر تھےاور ان کے بارے میں خیال ہے کہ وہ نازیوں سے ہمدردی رکھتے تھے۔ اُن کی رائے میں ہٹلر دور کی کئی شخصیات کو بلاوجہ احتسابی کارروائیوں کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
بشپ ہُڈال شٹانگل جیسے جنگی جرائم کے مرتکب افراد کی مدد کے لیے انہیں جعلی سفری دستاویزات بنوا کر دیتے تھے، تاکہ وہ کسی فرضی شناخت کے ساتھ یورپ سے نکلنے میں کامیاب ہو جائیں۔
شٹانگل اس نیٹ ورک کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پہلے شام گیا، جہاں اس کا خاندان بھی پہنچ گیا اور پھر سن انیس سو اکاون میں شٹانگل خاندان جعلی دستاویزات کے ساتھ آرام سے برازیل ہجرت کر گیا۔
ہٹلر دور میں لاکھوں بے گناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والے اس نازی کمانڈر نے اپنی بقیہ زندگی شہر ساؤ پاؤلو کے قریب جرمن کار کمپنی فوکس ویگن کے ایک کارخانے میں کام کرتے گزاری تھی۔
شٹانگل کی طرح ہٹلر دور کے ہزاروں دیگر فوجی افسران نے بھی اٹلی کے مخلتف شہروں کے راستے یورپ سے فرار ہو کر برازیل اور ارجنٹائن جیسے ممالک میں پناہ لے لی تھی۔
مؤرخ اور محقق ڈینیئل شٹال کے مطابق فرار کے یہ راستے پہلے سے طے شدہ کسی منظم ڈھانچے یا منصوبے کا حصہ نہیں تھے، بلکہ یہ سب کچھ مختلف طاقت ور اداروں کی طرف سے سہولت کاری کا نتیجہ تھا، جس میں کلیسائے روم کا بھی اہم کردار تھا۔
جرمنی میں احتساب سے بھاگنے والوں کی بڑی اکثریت نے ملک کے جنوب میں ایلپس کے پہاڑی سلسلے کو عبور کر کے اٹلی جانے کو ترجیح دی تھی۔ وہاں کیتھولک پادریوں کا ایک نیٹ ورک ان سابقہ نازی افسروں کو اپنی خانقاہوں میں چھپاتا، ان کی فرضی شناخت کی کیتھولک چرچ کی جانب سے تصدیق کی جاتی اور اس کے بعد عالمی ریڈ کراس تنظیم انہیں نئی سفری دستاویزات یا پاسپورٹ وغیرہ جاری کر دیتی۔
ان مجرموں کو روم یا پھر اٹلی کے دیگر ساحلی شہروں تک پہنچایا جاتا، جہاں سے وہ بحری جہازوں پر سوار ہو کر لاطینی امریکی ممالک کا رخ کرنے میں کامیاب ہو جاتے۔
ان معاملات پر برسوں تک تحقیق کرنے والے ماہر تاریخ ہوبرٹ وولف کے مطابق یہ ابھی تک واضح نہیں کہ اُس وقت کے پاپائے روم کا اس پورے عمل میں کیا کردار تھا؟
ان کے مطابق یہ بات تو واضح ہے کہ اس دور میں کیتھولک چرچ کی اعلیٰ قیادت کمیونسٹ سوویت یونین کو اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتی تھی۔ جرمنی کی شکست کے بعد امریکا اور مغربی دنیا کی توجہ کا مرکز کمیونزم بن رہا تھا اور ایسے میں بعض حلقوں میں سابق نازیوں سے ہمدردی شاید محض اس لیے پائی جاتی تھی کہ انہوں نے سوویت کمیونزم کا مقابلہ کیا تھا۔
مؤرخ ہوبرٹ وولف کے مطابق کلیسائے روم کی اس دور کی تاریخی دستاویزات کے منظر عام پر آنے اور انہیں پڑھنے سے ہی پتا چل سکے گا کہ آیا اس دور کے پوپ بھی جانتے تھے یا چاہتے تھے کہ ان کی ماتحت کلیسائی شخصیات نازیوں کی سہولت کار بنیں۔
یہ سوال بھی اہم ہو گا کہ آیا تب پاپائے روم اور امریکی سی آئی اے کے درمیان اس معاملے پر کوئی گٹھ جوڑ بھی تھا یا پھر یہ کہ آیا پوپ تب اس پورے معاملے سے بس نظریں ہی چراتے رہے تھے؟