کشمیر میں دو مشتبہ عسکریت پسند ہلاک: کشیدگی میں اضافہ
7 اپریل 2016بھارتی فورسز کے مطابق مظاہرین نے پولیس کی ایک بکتر بند گاڑی کو آگ لگا دی اور اس موقع پر نقاب پوش عسکریت پسندوں نے خود کار رائفلز سے ہوائی فائرنگ کرتے ہوئے ہلاک ہونے والے عسکریت پسندوں کو خراج تحسین پیش کرنے کا مظاہرہ کیا۔
شوپیاں ضلع سرینگر سے 45 کلومیٹر جنوب کی طرف واقع ہے، جہاں جمعرات کی صبح پولیس اور مظاہرین کے مابین مسلح جھڑپیں شروع ہوئیں۔ بھارتی فوج کے ایک ترجمان کرنل این این جوشی نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا،’’پہلے عسکریت پسندوں نے پولیس کی ایک گشتی ٹولی پر فائرنگ کی جس کے جواب میں پولیس کی کارروائی میں دو عسکریت پسند ہلاک ہوئے ہیں۔‘‘
عسکریت پسندوں کی پولیس کی فائرنگ سے ہلاکت کے بعد ان کے ہزاروں حامی سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے ہلاک شدگان کی حمایت میں نعرے لگائے اور پولیس پر پتھراؤ کیا۔
بھارتی حکام نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ فوج کے ساتھ تصادم میں ہلاک ہونے والے شدت پسندوں کا تعلق عسکریت پسند تنظیم حزب المجاہدین سے ہے۔
مزید یہ کہ سکیورٹی فورسز اور شدت پسندوں کے درمیان تصادم صبح لگ بھگ پانچ بجے شروع ہوا تھا۔
فوجی حکام کا کہنا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران تین مختلف جھڑپوں میں چار شدت پسندوں کو ہلاک کیا گیا ہے جبکہ درد پورہ میں ایک مزید تصادم جاری ہے۔
عسکریت پسند تنظیم حزب المجاہدین بھارتی زیر انتظام کشمیر میں کشمیری علیحدگی پسند باغیوں کا سب سے بڑا اور فعال گروپ مانا جاتا ہے۔ پولیس نے مشتعل مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا تاہم بعد ازاں حالات کو مزید سنگین ہونے سے بچانے کے لیے آنسو گیس کا استعمال روک دیا۔
کشمیر حکام نے کہا ہے کہ ہمالیہ کے شورش زدہ علاقے میں مقامی مشتبہ عسکریت پسندوں کی ہلاکت پر تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔
دریں اثناء مقامی پولیس اور فوج نے جائے وقوعہ کے ارد گرد کے علاقے کے رہائشیوں کو اشتعال انگیزی اور تشدد سے باز رہتے ہوئے گھروں میں بند رہنے کو کہا تاہم اس طرح کی درخواستیں نظر انداز کر دی جاتی ہیں۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں قریب نصف ملین بھارتی فورسز تعینات ہیں۔ اس علاقے میں متعدد مسلم عسکریت پسند گروپ بھارتی فوج کے ساتھ آئے دن متصادم رہتے ہیں۔ ان ہی میں سے ایک جزب المجاہدین بھی ہے۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں 1989ء سے جاری علیحدگی پسندوں کی بغاوت میں اب تک ہزاروں افراد لقمہ اجل بن چُکے ہیں جن میں زیادہ تر تعداد شہریوں کی ہے۔