کشمیر میں خاردار تاریں، چیک پوسٹیں اور ووٹنگ
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر گزشتہ دو دہائیوں سے تنازعے میں جکڑا ہوا ہے۔ حالانکہ ان دنوں بھارت بھر میں انتخابات کا چرچا ہے، لیکن کشمیر کے عوام تیس اپریل کو ووٹنگ کے دن کچھ خاص پرجوش دکھائی نہ دیے۔
سخت سکیورٹی
بھارت میں پولنگ کے ساتویں مرحلے میں کشمیر میں بھی ووٹنگ ہوئی۔ اس موقع پر وہاں سکیورٹی انتہائی سخت تھی۔ پولیس نے پولنگ کے عمل میں خلل سے بچنے کے لیے چھ سو سے زائد افراد کو گرفتار کیا۔ بہت سے لوگوں نے مسلمان علیحدگی پسندوں کی جانب سے بائیکاٹ کے مطالبات اور پرتشدد کارروائیوں کے خدشات کے باعث پولنگ اسٹیشنوں کا رُخ نہ کیا۔ اس باعث ٹرن آؤٹ صرف 25.6 فیصد رہا۔
فیصلہ اپنا اپنا
اس کے باوجود کچھ کشمیریوں نے ووٹ ڈالنے کا فیصلہ کیا۔ یہ تصویر سری نگر کی ہے جہاں ایک بزرگ شہری ووٹ ڈالنے کے بعد اپنی انگلی پر لگا سیاہی کا نشان دکھا رہے ہیں۔
جوش و جذبے سے عاری
اپوزیشن کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے حامی ووٹ ڈالنے کے بعد خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔ لیکن سری نگر میں پولنگ کے موقع پر مجموعی طور پر بھارت کے دیگر علاقوں جیسا جوش و جذبہ دیکھنے میں نہ آیا۔
ویران گلیاں
ووٹنگ کے دن سری نگر کی گلیاں ویران پڑی تھیں۔ تیس اپریل کو بیشتر دکانیں بند رہیں جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ بھی سڑکوں پر نہیں تھی۔ ریاستی دارالحکومت میں کرفیو کا سا سماں تھا۔
ووٹر کم، فوجی زیادہ
کشمیر کے دیگر شہروں کے مقابلے میں سری نگر میں ٹرن آؤٹ کافی کم رہا۔ اس پولنگ اسٹیشن پر سکیورٹی اہلکاروں کی تعداد ووٹروں سے زیادہ تھی۔
پہلے استصوابِ رائے
متعدد کشمیری علیحدگی پسند گروپوں نے پولنگ کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔ سری نگر میں متعدد لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ رہنے یا نہ رہنے کے لیے استصوابِ رائے چاہتے ہیں۔ دیواروں پر جگہ جگہ بھارت کے خلاف نعرے بھی دکھائی دیے۔
بے نیازی
سری نگر میں بچوں نے ہڑتال کے باعث اسکول بند ہونے کا خوب مزا لیا۔ وہ اپنے شہر اور ریاست میں پولنگ سے بے نیاز رہے اور انہوں نے عام پر طور پر مصروف رہنے والی سڑکوں پر کرکٹ کھیلی۔