1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشمیر: سیاحت سے متعلق جی ٹوئنٹی ورکنگ گروپ کا اجلاس شروع

جاوید اختر، نئی دہلی
22 مئی 2023

جی ٹوئنٹی کے اس تین روزہ اجلاس میں 17ملکوں کے مندوبین شرکت کر رہے ہیں۔ تاہم چین، ترکی اور انڈونیشیا اس اجلاس میں موجود نہیں ہیں۔ پاکستان نے "متنازعہ خطے" میں بھارت کی جانب سے اس میٹنگ کی مذمت کی ہے۔

https://p.dw.com/p/4ReVr
Indien | G20
تصویر: Aamir Ansari/DW

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں جی ٹوئنٹی ممالک کے سیاحت سے متعلق ورکنگ گروپ کا تین روزہ اجلاس پیر کے روز انتہائی سخت سکیورٹی انتظامات کے درمیان سری نگر میں مشہور ڈل جھیل کے قریب شیر کشمیر انٹرنیشنل کنونشن سینٹر میں شروع ہوا۔

اجلاس کے چیف کوارڈینیٹر ہرش وردھن شرنگلانے بتایا کہ اس اجلاس میں 17ممالک کے تقریباً 160مندوبین شرکت کر ر ہے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ بھارت اس سال جی ٹوئنٹی کی اپنی صدارت کا تقریباً نصف سفر طے کر چکا ہے۔ اب تک ملک بھر میں 118میٹنگیں ہوچکی ہیں۔ اس کا سب سے اہم اجلاس یعنی جی ٹوئنٹی سربراہی اجلاس ستمبر کے اوائل میں ہوگا جس میں رکن ممالک کے سربراہان مملکت شرکت کریں گے ۔

سری نگر میں جی ٹوئنٹی اجلاس: بھارت نے سکیورٹی سخت تر کر دی

ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کی جانب سے سن 2019 میں جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کوختم کرنے اور اسے مرکز کے زیر انتظام علاقہ قرار دینے کے بعد یہ پہلا بڑا سفارتی پروگرام ہے۔ اس کے لیے نہ صرف پورے شہر کو دلہن کی طرح سجایا گیا ہے بلکہ سکیورٹی کے بھی غیر معمولی انتظامات کیے گئے ہیں۔ چپے چپے پر سکیورٹی فورسز تعینات ہیں۔ ڈل جھیل میں خصوصی کمانڈوز گشت کر رہے ہیں۔

نئی دہلی جی ٹوئنٹی اجلاس انتشار کا شکار، مشترکہ اعلامیے کے بغیر ختم

پولیس کا کہنا تھا کہ وہ جی ٹوئنٹی اجلاس کے دوران دہشت گردوں کی طرف سے کسی بھی ممکنہ حملے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے اسی لیے سخت ترین سکیورٹی انتظامات کیے گئے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسی خفیہ معلومات ہیں کہ عسکریت پسند جموں میں بھارتی فوج کے زیر انتظام چلنے والے اسکول پر حملہ کر کے وہاں موجود طلبا کو یرغمال بنا سکتے ہیں۔ متعدد اسکولوں کو بند کردیا گیا ہے۔

کشمیر میں جی ٹوئنٹی ممالک کے سیاحت سے متعلق ورکنگ گروپ کے اجلاس کے لیے سکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات کیے گئے ہیں
کشمیر میں جی ٹوئنٹی ممالک کے سیاحت سے متعلق ورکنگ گروپ کے اجلاس کے لیے سکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات کیے گئے ہیںتصویر: Faisal Bashir/SOPA Images via ZUMA Press Wire/picture alliance

چین نے اجلاس کی مخالفت کی

چین نے اس اجلاس میں شرکت سے انکار کردیا۔ بیجنگ بھارتی ریاست اروناچل پردیش کو نہ صرف تبت کا حصہ سمجھتا ہے بلکہ وہ کشمیر کو بھی ایک متنازع علاقہ قرار دیتا ہے۔

چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بین نے چینی وفد کو کشمیر اجلاس میں نہیں بھیجے کے اسباب کا ذکر کرتے ہوئے کہا، "چین ایک متنازعہ علاقے میں جی ٹوئنٹی کی کسی بھی طرح کی میٹنگ کے انعقاد کی پوری طرح مخالفت کرتا ہے اور وہ اس طرح کی کسی بھی میٹنگ میں شرکت نہیں کرے گا۔"

بھارت نے اس بیان کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنے علاقے میں کسی بھی جگہ اجلاس منعقد کرنے کے لیے آزاد ہے۔ بھارت کا کہنا تھا کہ چین کے ساتھ تعلقات کو معمول پر رکھنے کے لیے سرحدوں پر امن اور سکون ضروری ہے۔

ایسی اطلاعت ہیں کہ ترکی، سعودی عرب اور انڈونیشیا نے بھی اجلاس میں شرکت کرنے سے منع کر دیا، تاہم بھارتی حکومت کی جانب ابھی اس بارے میں کوئي بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

ایشیاء کا سب سے بڑا ٹیولپ گارڈن

پاکستان کو اعتراض

پاکستان نے سری نگر میں اس اجلاس کے انعقاد پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ جموں و کشمیر ایک "متنازع علاقہ "ہے اور بھارت وہاں اجلاس منعقد کرکے "جموں و کشمیر کی بین الاقوامی متنازع حیثیت "کو ختم کرنا چاہتا ہے۔

پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ بھارت دنیا کے سامنے اپنے "تکبّر" کا مظاہرہ کر رہا ہے، جو اس کے "گھٹیاپن کو ظاہر کرتا ہے۔"

بھارت نے اس بیان پر سخت اعتراض کیا تھا۔

'اچھا مہمان ہو تو اچھی میزبانی بھی ہوگی'، بھارتی وزیر خارجہ

اقلیتی امور کے متعلق اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب فرنینڈ ڈی ورینس نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں 22سے 24 مئی کے درمیان جی ٹوئنٹی اجلاس کے انعقاد سے بھارتی حکومت اس صورت حال کو معمول پر دکھانے کی کوشش کررہی ہے جسے بعض حلقوں نے فوجی قبضے سے تعبیر کیا ہے۔

جی ٹوئنٹی وزرائے خارجہ اجلاس میں مودی کا عالمی اتحاد پر زور

ورینس کا کہنا تھا کہ کشمیر میں جی 20 کا اجلاس ایسے وقت ہورہا ہے جب وہاں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، غیر قانونی اور من مانی گرفتاریاں، ظلم و ستم، پابندیاں اور آزاد میڈیا اور انسانی حقوق کے محافظوں کی آواز کو دبانے کا سلسلہ جاری ہے۔  ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کی مذمت کی جانی چاہئے اور اجلاس کے دوران اسے نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے۔

 بھارت نے فرنینڈ ڈی ورینس کے اس بیان کی بے بنیاد اور غیرضروری قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔

 جاوید اختر (روئٹرز اور اے ایف پی کے ساتھ)