کرد ناراض: عراقی سیاسی بحران میں اضافہ
11 جولائی 2014عراقی وزیر اعظم نوری المالکی کے الزام کہ کرد قیادت سنی عسکریت پسندوں کی مدد کر رہی ہے پر کرد سیاستدانوں نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مالکی کی کابینہ میں شامل کرد وزراء اب میٹنگوں میں شریک نہیں ہوں گے۔ اسی دوران بغداد حکومت نے کرد خود مختار علاقے کے لیے سامان بردار تمام پروازوں پر پابندی عائد کر دی ہے۔ حکومتی اعلان میں واضح کیا گیا کہ کرد شہروں سلیمانیہ اور اربیل کے لیے مقامی اور بین الاقوامی مسافر بردار پروازوں کا سلسلہ پابندی کے زمرے میں نہیں لایا گیا ہے۔
کل جمعرات کے روز عراق کے نائب وزیراعظم روز نُوری شاویز نے مالکی کے الزام کے جواب میں کہا کہ ایسے بیانات افراتفری کا سبب بنتے ہیں اور وہ ناقص سکیورٹی انتظامات کے انہدام کا الزام دوسروں کے سر پر رکھنے کی کوشش میں ہیں۔ کرد سیاستدان شاویز نے مزید کہا کہ اُن کے وزراء کابینہ کے اجلاسوں کا بائیکاٹ کرتے ہوئے شریک نہیں ہوں گے۔ عراقی وزیراعظم کی کابینہ میں روز نوری شاویز سب سے بڑے منصب پر فائز ہیں۔ کرد وزراء کے پاس خارجہ امور، ٹریڈ، صحت اور امیگریشن و بے گھر افراد کے قلمدان ہیں۔
خود مختار کردستان کے صدر کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں مالکی کے الزام کے جواب میں کہا کہ وہ ہسٹریا میں لاحق ہونے کی وجہ سےعدم توازن کا شکار ہو چکے ہیں۔ کرد علاقے کے صدر کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والے بیان میں مزید کہا گیا کہ مالکی اپنی ناکامیوں کو درست ثابت کرنے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔ مالکی کے مخالفین اور تجزیہ کاروں کا بھی خیال ہے کہ وہ مصالحتی عمل کو فروغ دینے کے بجائے مخالفانہ نظریات کو ہوا دینے میں مصروف ہیں۔
بدھ کے روز نوری مالکی نے کرد خود مختار علاقے کی قیادت پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ سنی مزاحمت کاروں اور باغیوں کی درپردہ حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔ اپنے اِس بیان میں عراقی وزیراعظم نے کردوں پر لگائے گئے الزام کے حوالے سے کوئی ٹھوس شواہد پیش نہیں کیے تھے۔ یہ امر اہم ہے کہ مالکی کی شیعہ حکومت کو سنی عسکریت پسندی کے سخت اور سنگین چیلنج کا سامنا ہے جبکہ دوسری جانب کرد بھی سنی العقیدہ ہیں۔
نوری المالکی اور کرد لیڈرشپ کے درمیان تعلقات بتدریج خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ فریقین کئی معاملات پر سینگ پھنسائے ہوئے ہیں۔ بظاہر ان اختلافی معاملات میں سب سے اہم خام تیل کی ملکیت اور ایسا وسیع زمینی علاقہ جس پر بغداد حکومت اور کرد ایک ساتھ دعویٰ رکھتے ہیں ہیں۔ اِن اختلافات کے باوجود کئی نازک ادوار میں نوری المالکی کی وزارت عظمیٰ کو کرد اراکین پارلیمنٹ اور سیاستدانوں نے سہارا بھی دیا۔ مبصرین کے خیال میں کرد لیڈر شپ کی حمایت سے ہی مالکی کی وزارت عظمیٰ کسی حد تک چلتی رہی ہے۔