1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی: ٹارگٹ کلنگ میں 50 فیصد تک کمی، آئی جی سندھ

رفعت سعید، کراچی17 فروری 2014

پاکستانی صوبہ سندھ کے انسپکٹر جنرل پولیس شاہد ندیم بلوچ کا کہنا ہے کہ ستمبر 2013ء میں شروع ہونےوالا ٹارگٹڈ آپریشن کامیابی سے جاری ہے اور یہی وجہ ہے کہ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں میں 50 فیصد تک کمی آئی ہے۔

https://p.dw.com/p/1BAN5
تصویر: DW/R. Saeed

انسپکٹر جنرل پولیس سندھ شاہد ندیم بلوچ نے ڈوئچے ویلے کو دیے گیے ایک خصوصی انٹرویو میں کہا کہ حالیہ دنوں کے دوران شہر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں پر پے در پے حملے پولیس اور رینجرز کی جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کا ردعمل ہیں، کیونکہ شہر میں سیاسی جماعتوں کے مسلح گروہوں کے علاوہ کئی اقسام کے مافیاز بھی سرگرم ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کراچی ڈھائی کروڑ آبادی والا شہر ہے جہاں کئی اقسام کے تنازعات جاری ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض قتل کاروباری رقابت، ذاتی جھگڑے اور دشمنیوں کا شاخسانہ ہوتے ہیں۔ شہر کی بدامنی اور قتل و غارت گری کو ایک ہی تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔

’’قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملے پولیس اور رینجرز کی جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کا ردعمل ہیں‘‘
’’قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملے پولیس اور رینجرز کی جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کا ردعمل ہیں‘‘تصویر: Reuters

شاہد ندیم بلوچ نے کہا کہ کراچی میں ہونے والا حالیہ آپریشن انٹیلیجنس معلومات کی بنیاد پر کیا جا رہا ہے اور اس میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے، مگر پولیس معاشرے کو جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں سے پاک کرنے کا عزم رکھتی ہے۔

شہر میں آپریشن کے باوجود ٹارگٹ کلنگ جاری رہنے پر آئی جی سندھ کا کہنا تھا کہ آپریشن ایک جاری رہنے والے معاملہ ہے اور مستقل امن کے لیے پولیس کی عددی اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں بہتری کی ضرورت ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں جدید آلات کی آفادیت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔

آئی جی سندھ شاہد ندیم بلوچ نے کہا کہ صوبہ سندھ میں امن و امان کا سب سے زیادہ مسئلہ کراچی میں ہے مگر اس شہر میں پولیس کی کُل تعداد صرف 27 ہزار ہے۔ جس میں سے آٹھ ہزار وی وی آئی ڈیوٹیز پر تعینات ہیں۔ اور بقیہ 19 ہزار سے دو کروڑ آبادی والے شہر میں پولیسنگ ایک مشکل کام ہے۔

حالیہ دنوں میں کراچی کی اہم سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ اور کراچی پولیس کے سربراہ شاہد حیات کے حوالے سے مبینہ ماورائے عدالت قتل کے معاملے پر پیدا ہونے والے تنازعے کے حوالے سے آئی جی سندھ نے محتاط انداز میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی دباؤ آتے رہتے ہیں مگر یہ افسر پر منحصر ہے کہ وہ دباؤ کس حد تک برداشت کرسکتا ہے۔

پولیس میں سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی بڑی تعداد میں موجودگی کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ وہ پولیس میں سیاسی اثر و رسوخ کو کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

انسپکٹر جنرل پولیس شاہد ندیم بلوچ نے وسائل کی کمی کا شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نظام فرسودہ ہوچکا ہے، ’’اسے جدید خطوط پر استوار کرنے کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی سے بھی متعرف کروانا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس فورس کی مدد کے لیے ڈونر ایجینسیوں سے مدد طلب کی گئی ہے۔‘‘

کراچی میں آپریشن بغیر کی دباؤ کے جاری ہے، آئی جی پولیس
کراچی میں آپریشن بغیر کی دباؤ کے جاری ہے، آئی جی پولیستصویر: RIZWAN TABASSUM/AFP/Getty Images

ان کا کہنا تھا وہ حالیہ دنوں میں جرمن حکومت کی طرف سے پولیس کی تربیت کے لیے وسائل فراہم کرنے پر جی آئی زیڈ کے شکر گزار ہیں۔ جرمن حکومت نے پولیس کو 90 ہزار ڈالر کے مختلف آلات عطیہ کیے ہیں جن میں جدید لوکیٹرز، نائٹ ویژن چشمے، فرانزک آلات اور گاڑیاں شامل ہیں۔ جبکہ اس سے قبل امریکی حکومت کی جانب سے نہ صرف کراچی پولیس کو گاڑیاں اور بلٹ پروف جیکٹس فراہم کی گئیں بلکہ شعبہ تفتیش کی بہتری کے لیے بھی مالی معاونت کی جارہی ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ پولیس کو ملنے والی اس امداد اور وسائل کے باوجود پولیس کی کارکردگی کیوں بہتر نہیں ہو رہی تو ان کا جواب تھا کہ سندھ پولیس کے بجٹ کا 85 فیصد تک تنخواہوں پر صرف ہوجاتا ہے۔

ان کہنا تھا کہ دہشت گردی اور جرائم پیشہ عناصر سے نمٹنے کےلیے کراچی پولیس کو تربیت کی ماڈرن تکنیک اور ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے۔ پولیس پر دہشت گردوں کے حملوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ دستیاب وسائل میں پولیس افسران کی حفاظت یقینی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے اس بات کا خاص طور پر ذکر کیا کہ جرمن حکومت نے اعلٰی افسران کی بجائے نچلی سطح کے افسران کی تربیت کا بندوبست کیا ہے۔