کراچی: ٹارگٹ کلنگ میں 50 فیصد تک کمی، آئی جی سندھ
17 فروری 2014انسپکٹر جنرل پولیس سندھ شاہد ندیم بلوچ نے ڈوئچے ویلے کو دیے گیے ایک خصوصی انٹرویو میں کہا کہ حالیہ دنوں کے دوران شہر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں پر پے در پے حملے پولیس اور رینجرز کی جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کا ردعمل ہیں، کیونکہ شہر میں سیاسی جماعتوں کے مسلح گروہوں کے علاوہ کئی اقسام کے مافیاز بھی سرگرم ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کراچی ڈھائی کروڑ آبادی والا شہر ہے جہاں کئی اقسام کے تنازعات جاری ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض قتل کاروباری رقابت، ذاتی جھگڑے اور دشمنیوں کا شاخسانہ ہوتے ہیں۔ شہر کی بدامنی اور قتل و غارت گری کو ایک ہی تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔
شاہد ندیم بلوچ نے کہا کہ کراچی میں ہونے والا حالیہ آپریشن انٹیلیجنس معلومات کی بنیاد پر کیا جا رہا ہے اور اس میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے، مگر پولیس معاشرے کو جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں سے پاک کرنے کا عزم رکھتی ہے۔
شہر میں آپریشن کے باوجود ٹارگٹ کلنگ جاری رہنے پر آئی جی سندھ کا کہنا تھا کہ آپریشن ایک جاری رہنے والے معاملہ ہے اور مستقل امن کے لیے پولیس کی عددی اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں بہتری کی ضرورت ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں جدید آلات کی آفادیت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔
آئی جی سندھ شاہد ندیم بلوچ نے کہا کہ صوبہ سندھ میں امن و امان کا سب سے زیادہ مسئلہ کراچی میں ہے مگر اس شہر میں پولیس کی کُل تعداد صرف 27 ہزار ہے۔ جس میں سے آٹھ ہزار وی وی آئی ڈیوٹیز پر تعینات ہیں۔ اور بقیہ 19 ہزار سے دو کروڑ آبادی والے شہر میں پولیسنگ ایک مشکل کام ہے۔
حالیہ دنوں میں کراچی کی اہم سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ اور کراچی پولیس کے سربراہ شاہد حیات کے حوالے سے مبینہ ماورائے عدالت قتل کے معاملے پر پیدا ہونے والے تنازعے کے حوالے سے آئی جی سندھ نے محتاط انداز میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی دباؤ آتے رہتے ہیں مگر یہ افسر پر منحصر ہے کہ وہ دباؤ کس حد تک برداشت کرسکتا ہے۔
پولیس میں سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی بڑی تعداد میں موجودگی کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ وہ پولیس میں سیاسی اثر و رسوخ کو کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
انسپکٹر جنرل پولیس شاہد ندیم بلوچ نے وسائل کی کمی کا شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نظام فرسودہ ہوچکا ہے، ’’اسے جدید خطوط پر استوار کرنے کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی سے بھی متعرف کروانا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس فورس کی مدد کے لیے ڈونر ایجینسیوں سے مدد طلب کی گئی ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا وہ حالیہ دنوں میں جرمن حکومت کی طرف سے پولیس کی تربیت کے لیے وسائل فراہم کرنے پر جی آئی زیڈ کے شکر گزار ہیں۔ جرمن حکومت نے پولیس کو 90 ہزار ڈالر کے مختلف آلات عطیہ کیے ہیں جن میں جدید لوکیٹرز، نائٹ ویژن چشمے، فرانزک آلات اور گاڑیاں شامل ہیں۔ جبکہ اس سے قبل امریکی حکومت کی جانب سے نہ صرف کراچی پولیس کو گاڑیاں اور بلٹ پروف جیکٹس فراہم کی گئیں بلکہ شعبہ تفتیش کی بہتری کے لیے بھی مالی معاونت کی جارہی ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ پولیس کو ملنے والی اس امداد اور وسائل کے باوجود پولیس کی کارکردگی کیوں بہتر نہیں ہو رہی تو ان کا جواب تھا کہ سندھ پولیس کے بجٹ کا 85 فیصد تک تنخواہوں پر صرف ہوجاتا ہے۔
ان کہنا تھا کہ دہشت گردی اور جرائم پیشہ عناصر سے نمٹنے کےلیے کراچی پولیس کو تربیت کی ماڈرن تکنیک اور ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے۔ پولیس پر دہشت گردوں کے حملوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ دستیاب وسائل میں پولیس افسران کی حفاظت یقینی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے اس بات کا خاص طور پر ذکر کیا کہ جرمن حکومت نے اعلٰی افسران کی بجائے نچلی سطح کے افسران کی تربیت کا بندوبست کیا ہے۔