کراچی میں پولیس بس پر خود کش حملہ، گیارہ ہلاکتیں
13 فروری 2014کراچی پولیس کے سینئر اہلکار منیر شیخ کے مطابق صبح سویرے کیا جانے والا یہ طاقتور کار بم دھماکا غالباﹰ ایک خود کش حملہ تھا۔ منیر شیخ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’’بظاہر یہ ایک خود کش حملہ تھا جس میں بارود سے لدی ایک گاڑی کو دھماکے کے لیے استعمال کیا گیا۔ بس پولیس اہلکاروں کو لے کر جا رہی تھی، جن میں سے اب تک کم از کم 11 کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے۔‘‘
ڈاکٹر جمالی کے بقول بم حملے کے کچھ دیر بعد تک 11 ہلاک شدگان کی لاشیں جناح ہسپتال پہنچائی جا چکی تھیں۔ اسی دوران کراچی پولیس کے خصوصی تفتیشی یونٹ کے سربراہ فاروق اعوان نے اے ایف پی کو بتایا کہ بس پولیس اہلکاروں کو لے کر ایک تربیتی مرکز سے رخصت ہونے کے بعد یو ٹرن لے رہی تھی کہ بارود سے لدی ایک وین اس بس سے ٹکرا دی گئی۔ دیگر اطلاعات کے مطابق یہ کار بم حملہ کراچی کے مشرقی حصے میں ایسی جگہ پر کیا گیا، جہاں سے نیشنل ہائی وے زیادہ دور نہیں ہے۔
پولیس ذرائع نے مزید بتایا کہ دھماکے کے وقت اس بس میں 50 سے زائد افسران سوار تھے۔ یہ کار بم حملہ ایسے وقت کیا گیا ہے جب پاکستانی حکومت طالبان عسکریت پسندوں کے ساتھ گزشتہ ماہ کے آخر سے مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ بات چیت اس لیے کی جا رہی ہے کہ ملک میں طالبان عسکریت پسندوں کی سات سالہ مسلح بغاوت کو مذاکرات کے ذریعے ختم کیا جا سکے۔ اس بات چیت کا ابھی تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے۔ ابھی تک کسی بھی تنظیم یا شدت پسند گروپ نے اس دھماکے کی ذمے داری قبول نہیں کی۔
پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا اعلان 29 جنوری کو کیا تھا اور وہ ’امن کو ایک اور موقع دینا چاہتے تھے۔ لیکن آج کراچی میں کیا جانے والا طاقتور کار بم حملہ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران ملک میں ہونے والا 11 واں بڑا حملہ ہے۔
اس سال پاکستان میں سکیورٹی فورسز پر اب تک جتنے بھی عسکریت پسندانہ حملے کیے گئے ہیں، ان میں سے متعدد کی ذمے داری طالبان قبول کر چکے ہیں۔ ان میں کراچی میں اسی سال پولیس کے ایک سینئر اہلکار چوہدری اسلم کی ہلاکت کی وجہ بننے والا حملہ بھی شامل ہے۔ اٹھارہ ملین کی آبادی والے شہر کراچی کا پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار میں حصہ 42 فیصد بنتا ہے۔ یہ شہر کئی برسوں سے فرقہ ورانہ، لسانی اور سیاسی خونریزی سے بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔