کراچی میں روکے گئے ہزاروں کنٹینر افغانستان بھجوانے کے لیے کارروائی شروع
2 جنوری 2013پاکستان نے پاک افغان راہداری تجارت کے معاہدے کے تحت انشورنس گارنٹی کی شرط پوری نہ کیے جانے کی وجہ سے ان کنٹینروں کو گزشتہ اڑھائی ماہ سے روک رکھا ہے۔
اس حوالے سے پاکستان اور افغانستان کے مشترکہ چیمبر آف کامرس کے وفد نے گزشتہ روز وزیر اعظم پرویز اشرف سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات کے بعد وزیر اعظم نے وفاقی ادارہ برائے محصولات (ایف بی آر) کو دس دن کے اندر اندر یہ معاملہ حل کرنے کی ہدایت کی تھی۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیوز کے چیئرمین علی ارشد حکیم کا کہنا ہے کہ ان کنٹینرز کو روکنے کا مقصد غیر قانونی تجارت اور اسمگلنگ کو روکنا تھا۔
ڈوئچے ویلے کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے علی ارشد حکیم نے کہا، ’یہ کنٹینرز روکے گئے تھے کیونکہ ان کا انشورنس کور پورا نہیں تھا۔ ایک معاہدہ ہے، جس کے تحت ایسے کنٹینرز کے لیے انشورنس کور چاہیے ہوتا ہے۔ اس پر عمل نہیں ہو رہا ہے۔ ہم کوشش یہ کر رہے ہیں کہ اس انشورنس کے حوالے سے طریقہ کار کو طے کریں۔ ہم قانونی تجارت کو فروغ دیں گے اور غیر قانونی تجارت کی حوصلہ شکنی کریں گے‘۔
پاکستان کی طرف سے یہ اقدام ایک ایسے موقع پر کیا جا رہا ہے جب افغانستان میں قیام امن کے لیے افغان حکومت کی درخواست پر طالبان رہنماؤں کی رہائی کا سلسلہ بھی جاری ہے اور دو روز قبل پاکستان نے مزید آٹھ طالبان رہنماؤں کو رہا کر دیا تھا۔ اسلام آباد میں موجود افغان حکومتی عہدیداروں اور مشترکہ چیمبر آف کامرس کے نمائندوں نے پاکستان کی طرف سے ان اقدامات کا خیر مقدم کیا ہے۔
افغانستان کے نائب وزیر تجارت اور صنعت مزمل شنواری کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ان اقدامات سے دونوں ممالک کے تعلقات میں نمایاں بہتری آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان راہداری تجارت کا معاہدہ خطے کے عوام کی خوشحالی کی ضمانت ہے۔ اس لیے اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا، ’ہم اس معاملے کا طویل المدتی حل چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ دونوں ملک ایک دوسرے کے ساتھ کام کرنے کے عمل کومزید سہل بنائیں۔ غیرضروری کاغذی کارروائی سے بچنا چاہیے‘۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان ترمیم شدہ ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدہ گزشتہ برس 12 جون سے نافذ العمل ہے تاہم اس معاہدے میں کچھ ایسے مسائل ابھی بھی موجود ہیں، جن کی وجہ سے اسمگلنگ اور ٹیکس چوری جیسی شکایات بھی سامنے آتی رہتی ہیں۔ پاک افغان مشترکہ چیمبرآف کامرس کے صدر زبیر موتی والا کا کہنا ہے کہ گزشتہ چار سال کے دوران پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت کا حجم ڈیڑھ ارب ڈالر سے بڑھ کر اڑھائی ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے اور اگر تجارتی سہولیات کا درست استعمال کیا جائے تو یہی حجم 10 ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔
پاک افغان سرحد پر سکیورٹی کی خراب صورتحال اور ایک دوسرے کے مزدوروں پر تشدد کے حالیہ واقعات کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں زبیر موتی والا نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’یہ تنازعے ہمارے بھارت سے بھی ہیں۔ آج بھارت نے ہمیں پسندیدہ ترین ملک کا درجہ دے رکھا ہے۔ تجارت بہت بڑھ رہی ہے۔ ہمیں تجارت اور سیاست کو الگ کرنا ہوگا۔ ہم ان دونوں کو ساتھ لے کر نہیں چل سکتے۔ دنیا بھر کے ممالک نے ایسا ہی کیا ہے اور اگر ہم بھی یہی کریں گے تو خود بخود امن قائم ہو جائے گا‘۔
دریں اثناء پاکستانی وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے ملکی وزارت داخلہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ افغان تاجروں کو ویزے کی فراہمی آسان بنائے اور اس سلسلے میں انہیں پولیس رپورٹنگ سے استثنیٰ دیا جائے۔ وزیر اعظم نے ایف بی آر کو یہ ہدایت بھی کی کہ وہ پاک افغان سرحد پر قائم کسٹمز چوکیوں کو ہفتے میں ساتوں دن 24 گھنٹے کھلا رکھے۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: مقبول ملک