1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی میں امن کا قیام اولین ترجیح، نواز شریف

رفعت سعید، کراچی10 جولائی 2014

پاکستانی وزیراعظم نواز شریف نے کراچی میں امن و امان سے متعلق اجلاس کی صدارت کی ہے۔ وزیراعظم نے کراچی آپریشن تیز کرنے کی ہدایت کی ہے۔

https://p.dw.com/p/1CZUT
تصویر: Reuters

اس اجلاس میں کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل سجاد غنی، گورنر ڈاکٹر عشرت العباد اور وزیر اعلٰی سندھ سید قائم علی شاہ کے علاوہ صوبہ کی بیوروکریسی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران شریک ہوئے۔

کراچی آپریشن کے کمانڈر ڈی جی رینجرز میجر جنرل رضوان اختر نے اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ دس ماہ کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مقابلوں میں 392 جرائم پیشہ افراد مارے گئے۔ جن میں سب سےزیادہ تعداد کالعدم تنظیموں کے کارندوں کی ہے۔ جبکہ 31336 ملزمان گرفتار بھی کیے گئے۔ گرفتار شدگان میں سے 336بھتہ خور اور 83 اغواء کار شامل ہیں اور ملزمان سے 7000 سے زائد ہتھیار بھی برآمد کیے گئے ہیں۔

ملزمان سے 7000 سے زائد ہتھیار بھی برآمد کیے گئے ہیں
ملزمان سے 7000 سے زائد ہتھیار بھی برآمد کیے گئے ہیںتصویر: Rizwan Tabassum/AFP/Getty Images

وزیر اعظم نے ایک بار پھر آپریشن کے لیے وفاقی حکومت کے بھرپور تعاون کا یقین دلاتے ہوئے حکم دیا ہے کہ آپریشن کو مزید تیز کیا جائے۔ وزیر اعظم نے وزیرستان آپریشن کے رد عمل کے طور پر کراچی میں دہشت گردی کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ اس حوالے سے فوری اقدامات کیے جائیں، جبکہ گرفتار ملزمان کو جلد عدالتوں سے سزاؤں کو یقینی بنانے کے لیے تفیتش کے عمل کو بہتر اور تیز کرنے کی بھی حکم دے دیا ہے۔

وزیراعظم کو یہ بھی بتایا گیا کہ دس ماہ کے آپریشن میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 148 اہلکار بھی ہلاک ہوئے۔ ان میں سب سے زیادہ نقصان کراچی پولیس کا ہوا ہے جس کے 130 سے زائد اہلکاروں کو دہشت گردوں نے قتل کیا۔

پولیس کے اسپیشل انویسٹیگیشن یونٹ کے سربراہ ایس ایس پی فاروق اعوان نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جرائم پیشہ افراد پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنا رہے ہیں کیونکہ وہ آپریشن کی رفتار کو متاثر کرنا چاھتے ہیں۔ لیکن پولیس پر حملہ کرنے والے چند بڑے گروپوں کی نشاندہی ہو چکی ہے اور ان گروہوں کے خلاف کاروائی شروع کردی گئی ہے اور سیاسی جماعت سے وابستہ ٹارگٹ کلرز کو بھی گرفتار کیا گیا ہے جو پولیس اہلکاروں سمیت 20 افراد کے قتل اور بھتہ خوری کی لاتعداد وارداتوں میں ملوث ہیں۔

دس ماہ کے آپریشن میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 148 اہلکار بھی ہلاک ہوئے
دس ماہ کے آپریشن میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 148 اہلکار بھی ہلاک ہوئےتصویر: RIZWAN TABASSUM/AFP/Getty Images

شہر کا مغربی ضلع اس وقت دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہے لہذا سب سے زیادہ مقابلے بھی ضلع غربی میں ہی ہوئے ہیں۔ مگر گزشتہ ہفتے ہونے والے چند مقابلوں پر شکوک و شبہات بھی سامنے آئے ہیں۔ گزشتہ ہفتے بلدیہ ٹاون میں پولیس نے ایک مقابلے میں کالعدم تحریک طالبان سوات گروپ کے دو دہشت گرد مارنے کادعوٰی کیا مگر اگلے روز مارے جانے والے ایک نوجوان نعمان کے گھر والوں نے اس کی لاش شناخت کرتے ہوئے بتایا کہ نعمان پاکستان انڈر 14 کرکٹ ٹیم کا کھلاڑی تھا جسے پولیس نے میچ کھیل کر گھر واپس آتے ہوئے گرفتار کیا اور پھر جعلی مقابلے میں مار ڈالا۔

معروف صحافی اور تجزیہ نگار مظہرعباس کہتے ہیں کہ یہ وہی خدشات ہیں جن کے باعث سول سوسائٹی تحفظ پاکستان بل کی مخالفت کر رہی تھی۔ مگر نہ جانے کیوں ایم کیو ایم جیسی جماعت نے جو خود اس طرح کے جعلی مقابلوں کا براہ راست شکار رہی ہے، اچانک مؤقف تبدیل کر کے بل کی حمایت کر دی ہے۔