1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی میں امریکی تعاون سے پولیس کا تربیتی پروگرام

رفعت سعید، کراچی9 دسمبر 2014

پاکستانی پولیس کو دور حاضر کے تقاصوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت گزشتہ دہائی سے محسوس کی جا رہی تھی۔ لیکن حکومتوں کی عدم دلچسپی اور وسائل کی کمی کے باعث یہ کام جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔

https://p.dw.com/p/1E1TB
تصویر: DW/Rafat Saeed

مگر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے باعث پاکستان میں بڑھنے والی انتہا پسندی نے نہ صرف پولیس حکام بلکہ حکومتوں اور بین الاقوامی طاقتوں کو بھی سوچنے پر مجبور کر دیا کہ پاکستان جیسے اہم ملک میں مستقل قیام امن کے لیے پولیس کے معیار کو بہتر بنانا لازمی ہو چکا ہے۔

لہٰذا سندھ پولیس میں کریکیولم ڈویلپمنٹ کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا، جس میں کئی ریٹائرڈ اورسینئر پولیس افسران کو بھی شامل کیا گیا۔ اس مقصد کے لیے مالی معاونت امریکی اور جرمن حکومتوں نے فراہم کی۔ پہلے شعبہ تفتیش کو جدید خطوط پراستوار کرنے کے لیے نصاب مرتب کیا گیا اور دوسرے مرحلے میں انسانی حقوق کے تحفظ کو تربیتی نصاب کا حصہ بنایا گیا۔

کراچی میں منگل نو دسمبر کو اس حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری آف اسٹیٹ ولیم براؤن فیلڈ نے کہا کہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کا تحفظ پولیس کی اولین ذمہ داری ہے اور ایسی کوئی پولیس یہ ذمہ داری پوری نہیں کر سکتی جو بہتر تربیت یافتہ نہ ہو۔ انہوں تربیت اور معیار کی بہتری کے لیے سندھ پولیس کی معاونت جاری رکھنے کی بھی یقین دہانی کرائی۔

ماضی قریب کا ذکر کرتے ہوئے ولیم براؤن فیلڈ کا کہنا تھا کہ امریکی معاونت سے 246 پولیس اسٹیشنز اور چوکیوں کی تعمیر، پانچ سو گاڑیاں اور دیگر جدید آلات فراہم کیے جا رہے ہیں جبکہ پندرہ ہزار افسران کی تربیت بھی مکمل کی جا چکی ہے۔ انہوں نے کراچی پولیس کے مانیٹرنگ نظام کو مزید مؤثر بنانے کے لیے گیارہ ملین ڈالر کی مزید معاونت کا بھی اعلان کیا اور ساتھ ہی امریکی قونصل خانے میں امریکی ادارہ برائے انسداد منشیات اور نفاذ قانون کے مستقل دفتر کے قیام کا بھی اعلان کیا تاکہ پولیس کو فراہم کی جانے والی معاونت کو بہتر بنایا جا سکے۔

Pakistan Karatschi Zeremonie Curiculum Development Programm 09.12.2014
تصویر: DW/Rafat Saeed

سی ڈی سی کے معاون اور ڈی آئی جی عبدالخالق شیخ نے بتایا کہ پولیس کو مختلف چیلنجز کا سامنا ہے اور ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے پولیس کوجدید طرز پر منظم کرنے کی جتنی ضرورت آج ہے، پہلے کبھی نہیں تھی اور معیار کی بہتری کے لیے ضروری ہے کہ تربیتی نظام کو بہتر بنایا جائے مگر استعداد میں اضافے اور بہتر تربیت کے لیے بہترنصابی مواد بھی ضروری ہے۔

اس سے قبل جرمن حکومت نے بھی سندھ پولیس کو تریبت کی بہتری اور درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے آلات اور مالی معاونت فراہم کی ہے تاہم ان تمام اقدامات کے خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہو پا رہے۔

سینئر پولیس افسران مطلوبہ نتائج کے عدم حصول کی سب سے بڑی وجہ سیاسی خصوصاﹰ حکومتی دباؤ بتاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر سیاسی دباؤ ختم ہو جائے تو پولیس کی کارکردگی سو فیصد تک بہتر ہو سکتی ہے۔ اور اگر بات کی جائے کراچی میں امن و امان کی صورت حال کی، تو صرف تھانیداروں کی تعیناتی میں حکومتی مداخلت کے خاتمے سے ہی بہت سے معاملات بہتر ہو سکتے ہیں۔

سینئر تجزیہ کار مظہر عباس کے مطابق تمام تر مالی معاونت کے باوجود پاکستان میں پولیس کا محکمہ عوامی خدمت کے بجائے 'اسٹیٹ آرگن‘ کی حیثیت سے استعمال ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام اور پولیس کے درمیان ایسا تعلق قائم نہیں ہو سکا جو اس ادارے کی شناخت خادم کی حیثیت سے کروا سکے۔