1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی: عاشورے کے موقع پر خطرات

23 نومبر 2012

امام بارگاہوں کے باہر بم دھماکے، ماتمی جلوسوں پر فائرنگ اور خود کش حملہ آور، کراچی میں عشورہ گزشتہ کئی سال سے اتنا پر خطر نہیں تھا، جتنا کہ اس سال ہے۔ کوئی دن نہیں جاتا کہ دہشت گردی کا کوئی واقعہ نہ ہوا ہو۔

https://p.dw.com/p/16ode
تصویر: AP

اس بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے ساتھ ساتھ عوام میں اور اب سیاسی حلقوں میں یہ بےچینی بڑھتی جا رہی ہے کہ حکومت کے پاس اس صورتحال کا کوئی جواب نہیں ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ اگر سب لوگ تعاون کریں تو دہشت گردی کو روکا جا سکتا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ رحمٰن ملک کہتے ہیں کہ محرم کے آغاز سے پہلے ہی انہوں نے Standard Operating Procedures کا اعلان کیا تھا۔ ان دس احکامات میں موٹرسائیکل پر سواری اور موبائل ٹیلیفون سروس پر پابندی بھی شامل تھیں۔ مگر ان پر بہت لے دے ہوئی اور پھر سندھ کی عدالت عالیہ نے اس قسم کی پابندی کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا، ہر چند کہ بعد میں محدود پابندی کی اجازت بھی دے دی تھی۔

رحمٰن ملک کا کہنا ہے کہ یہ فیصلے وہ اکیلے نہیں کرتے بلکہ یہ صدر اور وزیر اعظم کی مرضی سے کئے جاتے ہیں اور اب تو انہوں نے صوبائی حکومتوں کی ذمے داری لگا دی ہے کہ عملدرآمد وہ خود کریں۔

پاکستانی شہر لاہور میں یوم عاشور کے جلوس میں زنجیر زنی کا ایک منظر
پاکستانی شہر لاہور میں یوم عاشور کے جلوس میں زنجیر زنی کا ایک منظرتصویر: AP

سندھ کی صوبائی حکومت کے وزیر اطلاعات شرجیل میمن کہتے ہیں کہ یہ دہشت گردی ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت کی جا رہی ہے اور اس کا مقصد کچھ اور ہے۔ حکومتِ سندھ نے عاشورہ کے مرکزی جلوسوں کے لیے پولیس اور رینجرز کے سات ہزار جوان تعینات کیے ہیں۔ سندھ پولیس کے انسپکٹر جنرل فیاض لغاری کہتے ہیں کہ یہ انتظامات شدید خطرات کی اطلاعات کی وجہ سے ضروری ہو گئے تھے۔

مگر جیسے جیسے یومِ عاشور قریب آتا جا رہا ہے، دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے اور حکومت پرتنقید پر بھی۔ شیعہ اور سنّی علماء کا کہنا ہے کہ حکومت کے اقدامات ناکافی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ زیادہ بنیادی اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے۔ جامعہ نعیمیہ کے مفتی منیب الرحمٰن کہتے ہیں کہ انتہا پسند تنظیموں پر لگائی جانے والی پابندی صرف نام کی رہ جاتی ہے اور لگتا ہے کہ صرف ان کے نام پر پابندی ہے، کام پر نہیں۔ایک اور سنّی عالم مولانا طاہر اشرفی کا کہنا ہے کہ اگر تنظیمیں پابندی لگنے کے بعد بھی اپنا کام کر ہی ہیں تو پھر وہ گویا حکومت سے زیادہ با اختیار ہیں۔

کراچی میں دہشت گردی کے واقعات ایک عرصے سے معمول بن چکے ہیں
کراچی میں دہشت گردی کے واقعات ایک عرصے سے معمول بن چکے ہیںتصویر: dapd

ممتاز شیعہ عالم علامہ عباس کمیلی کہتے ہیں، اصل سوال یہ ہے کہ حکومت ہے کہ نہیں، کیا اس کی عملداری قائم ہے یا نہیں؟ ان کا کہنا ہے کہ پابندیوں کے نام پر جلوس نہیں روکے جا سکتے۔ ماتمی جلوس 14 سو سال سے نکل رہے ہیں اور نکلتے رہیں گے۔مسئلہ ہے کہ کچھ علمائے سو خودکش حملوں کی درپردہ حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ علماء، جنہوں نے ایسے حملوں کو خلافِ شریعت قرار دیا، ان کے فتاویٰ کو بھی ایسے لوگ سیاسی قرار دیتے ہیں۔

حکومت کی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے سینیٹر طاہر مشہدی کا کہنا ہے کہ سیاسی دلجمعی کی ضرورت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی جماعت میں تو یہ Political Will ہے لیکن اتحاد کی دوسری جماعتوں میں ایسا نہیں۔
ان کی مخالف جماعتیں بھی کہتی ہیں کہ حکومت ان مسائل کے حل میں دلچسپی ہی نہیں رکھتی۔ عوامی نیشنل پارٹی کے حاجی عدیل کہتے ہیں کہ کراچی کی بڑی ذمے داری MQM پر عائد ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ MQM پورے ملک میں تو فوج کی مداخلت پسند کرتی ہے لیکن اگر شہر کراچی میں فوج بلانے کی بات کی جائے تو اعتراض کرتی ہے۔

فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی البتہ صاف طور پر کہہ چکے ہیں کہ کراچی میں فوج کی ضرورت نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ رینجرز مناسب خدمات انجام دے رہی ہے۔ البتہ اگر حکومت نے فوج کو اپنی مدد کے لیے بلایا تو وہ حاضر ہیں۔

رپورٹ: رفعت سعید، کراچی

ادارت: امجد علی