1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی دھماکے کے بعد پورا شہر سوگوار

4 مارچ 2013

کراچی کے رہائشی علاقے عباس ٹاﺅن کے بم دھماکے میں مرنے والے 45 افراد میں اکثریت اہلِ تشیع کی ہے، لیکن سوگواروں میں پورا شہر شامل ہے۔ شہر بھر میں ہُو کا عالم ہے اور زیادہ تر لوگ گھروں سے باہر نکلتے ہوئے جھجک رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/17pzq
تصویر: DW/R.Saeed

جہاں یہ انفرادی طور پر لوگوں کا نقصان ہے، وہیں معاشرے میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کی طرف بھی ایک اشارہ ہے۔ ہلاک اور زخمی ہونے والوں کے عزیز و اقارب کا کہنا ہے کہ اب مرنے والوں میں شیعہ اور سنّی دونوں شامل ہیں اور اس قسم کی دہشت گردی ملک میں فرقہ وارانہ تقسیم بڑھانے کے لیے کی جا رہی ہے۔

دھماکے کے نتیجے میں لگنے والی آگ نے ایک گاڑی کے گیس سلنڈر میں بھی آگ لگائی اور نتیجے میں ہونے والے دوسرے دھماکے نے مزید نقصان پہنچایا۔ کتنے ہی لوگ کچھ اس طرح سے زخمی ہیں کہ پورا بدن شیشوں سے چھلنی ہے اور جا بجا جسم کٹے ہوئے ہیں۔ اتنی تکلیف پر بھی متاثرین کسی ایک فقے کے خلاف نہیں ہیں تاہم کم از کم حکومت کے خلاف اُن کا غیض و غضب ایک فطری عمل ہے۔

پیر 4 مارچ کو وزیر داخلہ رحمان ملک کراچی میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے
پیر 4 مارچ کو وزیر داخلہ رحمان ملک کراچی میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئےتصویر: DW/R.Saeed

آج سہ پہر جب پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری عباس ٹاﺅن پہنچیں تو لوگوں نے ان کو گاڑی سے اترنے ہی نہیں دیا اور وہ کسی سے ملے بغیر ہی وہاں سے نکلنے پر مجبور ہو گئیں۔ ان کا بھی کہنا ہے کہ یہ صرف لوگوں کو فرقے وارانہ سیاست کی طرف دھکیلنے کی کوشش ہے۔

عام انتخابات سے محض چند مہینے پہلے ہونے والی یہ واردات پچھلے دنوں کوئٹہ میں ہونے والی فرقہ وارانہ دہشت گردی کی ہی ایک کڑی نظر آتی ہے، جہاں شیعہ ہزارہ کمیونٹی کے علاقے پر بم دھماکے میں لگ بھگ سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

وفاقی وزیرِ داخلہ رحمٰن ملک کا کہنا ہے کہ اس ساری دہشت گردی کے پیچھے کالعدم لشکرِ جھنگوی کا ہاتھ ہے، جس کا مرکز ان کے بقول جنوبی پنجاب کے علاقے جھنگ میں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب تک حکومتِ پنجاب اس گروپ کے خلاف کوئی عملی قدم نہیں اٹھائے گی، دہشت گردی ختم نہیں ہو پائے گی۔ انہیں یقین ہے کہ ابھی دہشت گردی کے مزید واقعات ہوں گے۔

کراچی کی سب سے بڑی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستّار البتہ اتوار کو ہونے والی دہشت گردی کے تانے بانے طالبان سے جوڑتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ MQM گزشتہ کافی عرصے سے یہ شور مچا رہی تھی کہ طالبان کراچی میں اپنے قدم جما رہے ہیں لیکن صوبائی حکومت میں شریک ہونے کے باوجود ان معاملات سے ان کو دور رکھا گیا اور ان کی بات پر کان نہیں دھرا گیا۔

عباس ٹاؤن میں دھماکے کی جگہ تباہی کا منظر پیش کر رہی ہے
عباس ٹاؤن میں دھماکے کی جگہ تباہی کا منظر پیش کر رہی ہےتصویر: DW/R.Saeed

رحمٰن ملک اپنی جماعت کی صوبائی حکومت کی نااہلی کو ایک حد تک مانتے ہیں کہ عباس ٹاﺅن کی حفاظت کا خاطر خواہ انتظام نہیں کیا گیا تھا۔ مگر وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ سندھ حکومت سے پوچھیں گے کہ اب تفتیشی عمل کیسے شروع کیا جا رہا ہے۔

اس خیال کو کہ اس دھماکے کے نتیجے میں کسی قسم کا فرقہ وارانہ تناﺅ پیدا ہو گا، مذہبی رہنماﺅ ں نے اس طرح مٹا دیا ہے کہ ہر مکتبہِ فکر کے علماء نے اس دہشت گردی کی مذمت کی ہے۔ مدرسہِ نعیمیہ کے سربراہ مفتی منیب الرحمٰن یہ مانتے ہیں کہ یہ کوششیں اسی جانب ہیں لیکن وہ پر امید ہیں کہ اس سے لوگوں میں فقوں کی بنیاد پر دراڑیں نہیں پڑیں گی۔

دہشت گرد البتہ اس حملے کے بعد چھپ نہیں گئے ہیں۔ جب عباس ٹاﺅن میں مرنے والوں کے جنازے اٹھائے جا رہے تھے تو اس وقت بھی ان پر مسلح حملہ کیا گیا گو کہ اب کی بار جنازے میں شریک لوگ بھی تیاری سے آئے تھے کہ سرکاری مشینری پر ان کا اعتبار ختم ہو چکا ہے۔ دونوں طرف سے فائرنگ کا تبادلہ ہوا ہے اور لگتا ہے کہ دہشت گردی کی کہانی کی یہ قسط یہیں ختم نہیں ہو گی۔

رپورٹ: رفعت سعید، کراچی

ادارت: امجد علی