1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تعليمپاکستان

کراچی: انٹرمیڈیٹ سال اول کے امتحان میں 60 فیصد طلبا ناکام

21 جنوری 2024

کراچی میں انٹرمیڈیٹ کے امتحان میں پری میڈیکل اور پری انجینئرنگ سمیت تمام گروپس میں مجموعی طور پر 60 فیصد طلباء فیل ہوئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4bRej
Bildergalerie Pakistan Darra Adamkhel Waffenmarkt & Bücherei
تصویر: Abdul Majeed/AFP

 کئی برس سے جاری مایوس کن نتائج کا سلسلہ ہمارے تدریسی نظام اور امتحانات کے طریقۂ کار پر ایک سوالیہ نشان ہے۔

بورڈ آف انٹرمیدیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کراچی نے 9 جنوری 2024 کو انٹر میڈیٹ سال اول کے نتائج کا اعلان کیا ہے۔ ان نتائج کے مطابق پری انجینئرنگ  گروپ میں 34.91فیصد طلباء کا میاب ہوئے ہیں۔

جبکہ پری میڈیکل گروپ میں 36.79 فیصد طلباء  کامیاب ہوئے ہیں۔ دونوں گروپس میں پاس ہونے والے طلباء کا تناسب ایک تہائی رہا۔ جبکہ مجموعی طور پر سال اول کے امتحان میں 60 فیصد طلباء فیل ہوئے ہیں۔

یہ نتائج کچھ زیادہ حیران کن نہیں ہیں۔ ملک بھر میں انٹر میڈیٹ میں پاس ہونے والے طلباء  کا تناسب کئی سال سے مسلسل انحطاط کا شکار ہے۔ آئیے اس کی وجوہات جانتے ہیں۔

 

کورونا وائرس وبا کے تعلیمی نظام پر اثرات

لاریب سعید  کا تعلق کراچی سے ہے وہ ایک ایجوکیشن ایکسپرٹ ہیں۔ انھوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ کورونا وائرس  وبا نے دنیا بھر میں تعلیمی نظام پر منفی اثرات مرتب کئے  تھے۔ مگر زیادہ تر ممالک نے  بہتر سٹرٹیجی اور نئی پالیسیوں کی مدد سے ان نقائص پر قابو پا لیا ہے۔ پاکستان میں اس حوالے سے مناسب اقدامات کے فقدان کے باعث میٹرک اور انٹر میڈیٹ لیول پر صورتحال کافی کشیدہ ہے۔

 

لاریب کہتی ہیں کہ 2020 میں لاک ڈاؤن کے دوران طلباء کو امتحانات لئے بغیر پاس کر دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ 2021 میں میٹرک اور انٹر میڈیٹ کے امتحانات میں صرف آپشنل مضامین کا امتحان لے کر  لازمی مضامین جیسے انگلش، اردو، اسلامیات وغیرہ میں امتحان لئے بغیر پاس کیا گیا تھا۔

وادی تیراہ کے اسکول جہاں طلبا ہیں اور نہ اساتذہ

لاریب مزید بتاتی ہیں کہ وبا کے دوران امتحانات کے بغیر پاس ہونے والے اس بیچ کو " کووڈ پاس" کہا جاتا ہے۔ اس بیچ نے  2022 میں دو سال کے وقفے کے بعد امتحانات دیئے جس کے باعث 2022 اور 2023 دونوں سالوں میں انٹر میڈیٹ  کی سطح پر فیل ہونے والے طلباء کا تناسب بہت زیادہ ہے۔

لاریب کے مطابق ہمارے تعلیمی نظام کا المیہ یہ ہے کہ یہاں سائنس مضامین کو بھی بس تھیوریٹیکلی پڑھایا جا رہا ہے اور اساتذہ کی اکثریت جنھیں صرف تنخواہ سے  غرض ہے یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ سائنسی قوانین تجربات کے ذریعے پڑھائے اور سمجھائے جاتے ہیں۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ ظا ہر ہے جن طلباء نے کووڈ  وبا کے دوران عملی سائنس  میں حصہ نہیں لیا تھا وہ نئے سلیبس کو درست طور پر سمجھ نہیں پارہے۔ یہی وجہ ہے  کہ دو برسوں میں انٹر میڈیٹ سال اول میں زیادہ تر  طلباء فیل ہو ئے ہیں۔

طلباء اور والدین کا مؤقف کیا ہے؟

افشان شاہد جوہر ٹاؤن کراچی کی رہائشی ہیں۔ انھوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ان کے بیٹے ارصم نے پری میڈیکل سال اول کا امتحان دیا تھا مگر وہ دو مضامین میں فیل ہوا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے  یہ خبر انتہائی حیران کن تھی کیونکہ ارصم کا شمار سکول میں لائق طلباء میں ہوتا تھا اور میٹرک میں اچھے نمبروں کے باعث  اسے بہترین پرائیویٹ کالج میں با آسانی داخلہ مل گیا تھا۔

افشاں مزید بتاتی ہیں کہ ان کے بیٹے کے سائنسی مضامین میں فیل ہونے کی بڑی وجہ  کورونا وائرس وبا کے بعد تعلیمی نظام کا انحطاط ہے۔ اچھے کالجز  زیادہ فیسیں لینے کے با وجود عملی سائنس نہیں کروا رہے اور بس سلیبس کور کروایا جارہا ہے۔مرتضی حسین بی ایس بایو ٹیکنالوجی کے طالبعلم ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سال اول میں عموما طلباء  کو مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ کالج کا ماحول اور تدریسی انداز سکولوں سے مختلف ہوتا جس میں ایڈجسٹ ہونے میں وقت لگتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کورونا وائرس وبا اور سوشل میڈیا  کے بڑھتے استعمال  نے طلباء کو پڑھائی چور بنا دیا ہے اور وہ محنت کرنے کے بجائے شارٹ کٹ ڈھونڈتے ہیں۔ لیکن اس کی ایک بڑی وجہ تدریسی نظام بھی ہے جو ان کے شوق  کو بڑھانے کے بجائے انھیں پڑھائی سے بیزار بنا رہا ہے۔

 

مرتضی کہتے ہیں کہ امتحان چاہے کالج میں ہوں یا بورڈ کا امتحان ہو ان کا مقصد صرف یہ تجزیہ کرنا ہے کہ آیا طلباءنے سارا کورس پڑھا ہے اور اس کا رٹا لگا لیا ہے۔  پیپر آؤٹ ہونا تو اب ایک معمول بن  ہی چکا ہے اس کے باجود سوالی پرچے میں ایسی بڑی تبدیلیاں نہیں کی جا رہیں جن سے طلباء کی قابلیت اور سیکھنے کی شرح کو جانچا جا سکے ۔

’تعليم کے ليے باہر جانا چاہيے، ايسے واقعات کو روکنا حکومت کا کام ہے‘

 

امتحانی طریقۂ کار کے نقائص

احمد اقبال یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور سے منسلک ہیں۔ انھوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ہمارا امتحانی نظام بڑے نقائص کا شکار ہے۔ دنیا بھر میں امتحانات طلباء  کی سال بھر کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لئے منعقدکیئے جاتے ہیں۔ جس کے لئے جدید اور مؤثر معیاری اور مقداری تکنیک استعمال کی جاتی ہیں۔   لیکن ہمارے سکول و کالجز میں اس طرح کی جانچ کا سرے سے کوئی  نظام ہی نہیں ہے۔ ہمارے ہاں امتحانات  کا انعقاد صرف طلباء کی ذہانت یا رٹے کی صلاحیت جانچنے کے لئے کیا جاتے ہیں ۔

احمد اقبال کے مطابق اس طرح  سب سے زیادہ نقصان ان طلباء کا ہوتا ہے جو از خود سوچنے، سمجھنے، تجزیہ کرنے اور تجربات کے ذریعے سائنسی قوانین کو سمجھنا چاہتے یا عملی تحقیق کا رجحان رکھتے ہیں۔ ایسے طلباء کی صلاحیتوں پر ہمارا تعلیمی  اور امتحانی نظام ابتدائی مرحلے میں ہی فل سٹاپ لگا دیتا ہے۔

 

میٹرک اور انٹر میڈیٹ کا نیا امتحانی نظام کن خصوصیات کا حامل ہوگا؟

پاکستان انٹر بورڈ کو آرڈینیشن کمیشن کے مطابق  سنہ 2024 میں امتحانات کے بعد جو رزلٹ کارڈ جاری کئے جائیں گے ان میں نمبروں کے بجائے گریڈز شامل کئے جائیں گے۔ یہ نظام 2023 سے پورے ملک میں یکساں رائج  کر دیا گیا ہے جس میں نمبروں کی مرکزی حیثیت کو جی  پی یا سی جی پی اے سے تبدیل کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ نئے مارکنگ نظام  میں طلباء کے فیل سٹیٹس کو مکمل طور پر ختم کردیا گیا ہے اور اس کی جگہ یو گریڈ شامل کیا گیا ہے جس کا مطلب "ان سٹسفیکٹری" یا غیر تسلی بخش کارکردگی ہے۔ اس کے ساتھ ہی کسی بھی مضمون میں پاس ہونے کی فیصد کو 40 کر  دیا گیا ہے جبکہ نئے جاری کئے جانے والے رزلٹ کارڈز میں طلباء کی کارکردگی سے متعلق فیڈ بیک کے خانے کا اضافہ بھی کیا گیا ہے۔

انٹر بورڈ کو آرڈینیشن کمیشن کے مطابق  پاکستان کا فی الوقت رائج مارکنگ  کا نظام طلباء کو نمبروں کی دوڑ میں ڈال دیتا ہے اور وہ نقل، رٹا اور دیگر غیر قانونی طریقوں سے زیادہ نمبر لینے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں تاکہ مستقبل میں پروفیشنل کالجز  یا یونیورسٹیوں میں باآسانی داخلہ لے سکیں۔ اس طرح ان کی تعلیمی قابلیت اور  سکلز سامنے نہیں آتیں۔ نئےامتحانی نظام سے نمبروں کی دوڑ ختم کر کے طلباء کو ٹریک پر ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔ جبکہ پروفیشنل کالجز میں داخلہ بھی اب جی پی اے کے مطابق ہوگا۔

 

اس حوالے سے مرتضی حسین کہتے ہیں کہ اگرچہ ہر جانب بحث جاری ہے کہ سکولوں اور کالجوں میں رائج  تدریسی نظام وہی ہے تو صرف امتحانی طریقۂ کار میں تبدیلی سے  کس طرح بڑے نتائج حاصل ہوں گے۔ لیکن پھر بھی یہ بہتری کی طرف ایک خوش آئند پیش رفت ہے جس سے بہت سے محنتی طلباء اب نمبروں کی دوڑ کے بجائے اپنی صلاحیتوں کو  ابھارنے پر توجہ دیں گے۔