1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی انتخابی معرکہ آخری مراحل میں

رفعت سعید، کراچی22 اپریل 2015

کراچی میں ضمنی انتخاب کا معرکہ آخری مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے بھرپور انتخابی مہم چلائی ہے تاہم حلقے میں عوامی حمایت کے باعث ایم کیو ایم کی جیت کے امکانات زیادہ ہیں۔

https://p.dw.com/p/1FCSb
Pakistan Wahlen Archivbild 2005
تصویر: picture alliance/AP Photo

2002ء کے انتخابات سے قبل وجود میں آنے والا حلقہ این اے 246 ایم کیو ایم کا مضبوط قلعہ تصور کیا جاتاہے لیکن اس بار کئی وجوہات کی بنا پر ایم کیو ایم کو اس انتخابی حلقے میں باقاعدہ ڈور ٹو ڈور مہم چلانا پڑی ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق انتخابی مہم تک تینوں جماعتیں تقریباً برابر ہی رہی ہیں لیکن حلقے میں عوامی حمایت کے باعث ایم کیو ایم کی جیت کے امکانات زیادہ ہیں مگر ایم کیو ایم کے لیے صرف نشست جیتنا ہی کافی نہیں ہو گا۔ تجزیہ کاروں کی نظریں ایم کیو ایم کو ملنے والے ووٹوں کی مجموعی تعداد پر بھی لگی ہیں۔

2013ء کے انتخابات میں اس حلقے سے ایم کیو ایم کے کامیاب امیدوار نبیل گبول نے استعفے اور پارٹی سے علیحدگی کے بعد اپنے حق میں ڈالے گئے 1 لاکھ 40 ہزار سے زائد ووٹوں کے متعلق جو بیانات دیے ہیں، ان سے ایم کیو ایم پر دھاندلی کے الزامات بہت مضبوط ہوگئے ہیں۔ ایسے میں اگر ایم کیو ایم کے ووٹوں کی تعداد میں بیس فیصد کی بھی کمی ہوئی تو ایم کیو ایم کے لیے مخالفین کے الزامات کا سامنا کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔

ایم کیو ایم کے رہنما خالد مقبول صدیقی نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 23 اپریل کو اپنے ضمنی انتخاب میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے درمیان نمبر دو پوزیشن کے لیے مقابلہ ہے۔ ایم کیو ایم ہی کے حیدر عباس رضوی البتہ کہتے ہیں کہ این اے 246 میں ایم کیو ایم کا کوئی ثانی نہیں، دور تک بلکہ بہت دور تک۔

دو ہزار چار کا ضمنی انتخابی معرکہ 12 انسانی جانیں نگل گیا تھا اور اس مرتبہ بھی انتخابی مہم کے دوران پائی جانی والی کشیدگی اور تصادم کی فضا کے باعث امن و امان قائم رکھنے کے لیے سکیورٹی کے انتظامات رینجرز کے سپرد کر دیے گئے ہیں۔ رینجرز کے جوان پولنگ اسٹیشنز کے اندر بھی تعینات ہوں گے۔ دھاندلی کے عنصر کو ختم کرنے کے لیے تمام 213 پولنگ اسٹیشنوں کے 767 میں سے ہر بوتھ پر 1200 سو سے زائد سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے گئے ہیں، جن کی نگرانی رینجرز کے سپاہی خود کریں گے۔

Anhänger von Atlaf Hussein protestieren gegen Imran Khan
تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے بھرپور انتخابی مہم چلائی ہے تاہم حلقے میں عوامی حمایت کے باعث ایم کیو ایم کی جیت کے امکانات زیادہ ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

امیدواروں کی جانب سے انتخابی عملے پر اٹھائے جانے والے اعتراضات کے باعث عملے کو خصوصی پاسز جاری کیے گئے ہیں۔ پولنگ اسٹیشنز کے اندر پریزائیڈنگ افسروں سمیت تمام عملے اور ووٹرز کے موبائل فون کے استعمال پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

بعض مبصرین کے مطابق ضمی انتخابات میں ووٹرز کی شرکت کا تناسب کم رہتا ہے اور اگر ایم کیو ایم اندرونی اور بیرونی مشکلات کے باوجود مخالفین سے دگنے ووٹ بھی لینے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو مخالف امیدواروں کے منہ بند ہو جائیں گے۔

انتخابی عمل کو شفاف بنانے کے لیے ایم کیو ایم کے مخالف امیدواروں کی جانب سے بائیو میٹرک نظام کی تنصیب کا مطالبہ کیا گیا، جس کی رینجرز نے بھی حمایت کی تاہم الیکشن کمیشن نے اس سے معذرت کر لی۔

جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بائیو میٹرک سسٹم کی تنصب سے معذرت سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ الیکشن کمیشن غیر جانبدار نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے الیکشن کمیشن کی معذرت سمجھ سے بالاتر ہے جب کہ شہر میں ہر موبائل شاپ پر بائیومیٹرک مشین موجود ہے، جہاں شہری اپنی موبائل سمز رجسٹر کروا رہے ہیں۔