1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کابل کانفرنس: مستحکم افغانستان کے لیے علاقائی تعاون پر اتفاق

14 جون 2012

افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے ایک روزہ بین الاقوامی کانفرنس آج کابل میں ہوئی ہے۔ اس میں شریک ملکوں کے رہنماؤں نے افغانستان میں استحکام اور امن کے لیے علاقائی تعاون اور پائیدار کوششوں پر زور دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/15ELo

اس اجلاس کو ’ایشیا کے دِل‘ کا نام دیا گیا اور اس میں انتیس ملکوں کے نمائندے شریک ہوئے۔ اس میں دہشت گردی اور منشیات کے خلاف جبکہ تجارت کے فروغ کے لیے تعاون بڑھانے پر زور دیا گیا ہے۔ علاقائی تعاون کے لیے اعتماد سازی کے اقدامات پر بھی اتفاق کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی شریک ملکوں کے درمیان مزید سیاسی مذاکرات پر بھی اتفاق رائے سامنے آیا ہے۔

برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ نے کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ افغانستان کو خوفناک مسائل کا سامنا ہے، جن کا حل پائیدار علاقائی کوششوں کے بغیر بہت ہی مشکل ہو گا۔ جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے کہا کہ انتہا پسندی، منشیات کی اسمگلنگ اور منظم جرائم افغانستان میں بدستور خطرہ بنے ہوئے ہیں۔

اس کانفرنس کے موقع پر پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کا کہنا تھا کہ پاکستان محفوظ افغانستان کے فوائد کو سمجھتا ہے اور پرامن افغانستان پاکستان کے لیے ضروری ہے۔

قبل ازیں کانفرنس کے موقع پر استقبالیہ خطاب میں افغان صدر حامد کرزئی نے کہا کہ خطے کے ملکوں اور اتحادیوں کے درمیان تعاون سے افغانستان اور خطے میں استحکام آئے گا۔

انہوں نے کہا کہ مل جل کر کام کرنے سے خطے اور افغانستان میں امن کو فروغ حاصل ہو گا، اقتصادی (ترقی) کے حوالے سے پیش رفت ہو گی، ساتھ ہی دہشت گردی، انتہائی پسندی اور تشدد سے چھٹکارا ملے گا۔

افغان صدر نے کہا: ’’بلاشبہ ایشیا کے دِل کے طور پر افغانستان اس بات کی خواہش رکھتا ہے اور اپنے ہاں باہمی تعاون کے زیادہ موزوں حالات کے اشارے بھی دیکھ رہا ہے۔‘‘

حامد کرزئی کا کہنا ہے کہ امن کا انحصار علاقائی تعاون پر ہے، جس کے تحت افغانستان میں پرتشدد کارروائیوں میں ملوث انتہاپسندوں کے ٹھکانے تباہ کیے جائیں۔

جمعرت کی کابل کانفرنس میں وزرائے خارجہ کے ساتھ نیٹو، یورپی یونین اور اقوام متحدہ جیسے عالمی اداروں کے نمائندے بھی شریک ہوئے۔

رواں برس اپریل میں شدت پسندوں نے کابل میں ایک بڑا حملہ کیا تھا اور امریکا نے اس کی ذمے داری حقانی نیٹ ورک پر ڈالی تھی، جس کا تعلق پاکستان کے قبائلی علاقوں سے ہے۔ پاکستان حقانی نیٹ ورک کے لیے کسی بھی طرح کی حمایت کی تردید کرتا ہے۔

اس وقت افغانستان میں تعینات مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے فوجیوں کی تعداد تقریباﹰ ایک لاکھ تیس ہزار ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ فرانس نے انخلاءکے طے شدہ پروگرام کے برعکس رواں برس کے آخر تک اپنے فوجی افغانستان سے واپس بلانے کا اعلان کیا ہے۔ فرانس افغانستان میں فوجی بھیجنے والا پانچواں بڑا ملک ہے۔

آئندہ ماہ جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں بھی ایک افغان کانفرنس ہو گی، جس میں سماجی ترقی کو یقینی بنانے کے طریقہ کار طے کیے جائیں گے۔

ng/ij (dpa, Reuters, AFP)