1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کابل حکومت اور طالبان کے درمیان اعلیٰ سطحی رابطہ

1 جولائی 2012

طالبان اور افغان حکومت کے درمیان رواں ہفتے امن مذاکرات ہوئے ہیں۔ خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق ’درشت حریفوں‘ کے مابین یہ غیرمعمولی اعلیٰ سطحی رابطہ جاپان میں ہوا ہے۔

https://p.dw.com/p/15OoQ

خبر رساں ادارے اے پی نے یہ بات ہفتے کو حکام کے حوالے سے بتائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ طالبان کے ایک نمائندے اور امن مذاکرات کے لیے ذمہ دار افغان حکومت کے ایک اعلیٰ اہلکار کے درمیان یہ ملاقات جاپان کے شہر کیوٹو میں امن و مصالحتی کانفرنس کے موقع پر ہوئی ہے۔

اس ملاقات کو افغانستان کے طویل تنازعے کے پر امن حل کے حوالے سے مثبت اور غیرمعمولی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔ اے پی کے مطابق اس سے افغانستان کے صدر حامد کرزئی کو طالبان اور حزبِ اسلامی جیسے اپنے ’دشمنوں‘ کے ساتھ بیٹھنے کا موقع بھی ملا ہے۔

امن کے لیے کام کرنے والے صدیق منصور انصاری بھی کیوٹو کی دوشیشا یونیورسٹی میں رواں ہفتے ہونے والے اجلاس کے شرکاء میں سے ایک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس یونیورسٹی کی جانب سے اس موضوع پر منعقد کی گئی یہ تیسری کانفرنس تھی، لیکن طالبان کے کسی نمائندے نے اس میں پہلی مرتبہ شرکت کی ہے۔

طالبان نے بھی اپنے نمائندے کی اس کانفرنس میں شرکت کی تصدیق کی ہے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹیلی فون پر گفتگو کے دوران اے پی کو بتایا کہ ان کے سابق وزیر برائے منصوبہ بندی قاری دین محمد حنیف کانفرنس میں شریک ہوئے اور انہوں نے ’اسلامی امارات کی پالیسیوں کی وضاحت کی۔’

Hamid Karzai Präsident Kabul Ansprache Parlament
افغانستان کے صدر حامد کرزئیتصویر: AP

یہ بات اہم ہے کہ طالبان کے اہلکار بیرون ملک منعقدہ نشستوں میں شاذو نادر ہی شریک ہوتے ہیں۔ مجاہد نے یہ نہیں بتایا کہ حنیف جاپان کیسے گئے۔ قاری دین محمد حنیف طالبان کی سیاسی کمیٹی کے رکن ہیں اور مطلوب افراد کی فہرست میں ان کا نام شامل نہیں ہے۔

کیوٹو میں ہونے والی ملاقات میں کابل حکومت کی نمائندگی اعلیٰ امن کونسل کے سینئر اہلکار محمد معصوم ستانک زئی نے کی۔

صدیق منصور انصاری کا کہنا ہے کہ اس کانفرنس کا مقصد امن معاہدے کی کوشش کے بجائے اختلافات اور نظریات کو سامنے لانا تھا۔

انہوں نے مزید کہا: ’’دوشیشا کی اس تیسری کانفرنس میں تمام فریقین نے اپنے اپنے خیالات اور ایجنڈے پیش کیے لیکن کوئی ٹھوس اتفاق رائے سامنے نہیں آیا۔‘‘

انصاری کے مطابق حنیف کا کہنا تھا کہ قطر میں امریکا کے ساتھ ہونے والے مذاکرات رواں برس قبل ازیں معطل کر دیے گئے تھے، جس کی وجہ امریکا کی جانب سے اس وعدے سے پھر جانا تھا کہ گوآنتانامو کے حراستی کیمپ میں قید افغان شہریوں کو رہا کر دیا جائے گا اور انہیں جہاں وہ جانا چاہیں، جانے دیا جائے گا۔

ng/aba (AP)