1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
دہشت گردیشمالی امریکہ

کابل ایئر پورٹ حملے میں واحد خود کش بمبار ملوث تھا، امریکا

5 فروری 2022

امریکا نے اپنی تفتیش سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اگست 2021ء  کے  کابل ہوائی اڈے کے دھماکے کا ذمہ دار ایک ہی شخص تھا۔ طالبان کے کنٹرول کے بعد جب لوگ ملک سے نکلنے کی کوشش میں تھے اس دوران اس حملے میں 183 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

https://p.dw.com/p/46Z38
Afghanistan Kabul |  Evakuierung am Hamid Karzai International Airport
تصویر: Staff Sgt. Victor Mancilla/U.S. Marine Corps/REUTERS

امریکی فوج نے گزشتہ برس کابل کے ہوائی اڈے پر ہونے والے بھیانک بم دھماکے کے بارے میں اپنی تفتیش سے بالآخر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہ حملہ تنہا ایک ہی خود کش بمبار نے انجام دیا تھا۔ اس حملے میں 170 افغان شہری اور 13 امریکی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔

امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ، جنرل فرینک میکنزی نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ اسلامی شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کا ایک نام نہاد جنگجو 20 پاؤنڈ دھماکہ خیز مواد سے لیس تھا۔ اس نے ہوائی اڈے کے ایک گیٹ کے قریب لوگوں کے زبردست ہجوم کے درمیان خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔

تفتیش سے ابتدائی غلط تجزیے کی وضاحت ہوئی

اس دھماکے کے فوری بعد حکام کی جانب سے جو اطلاعات فراہم کی گئی تھیں، ان میں کہا گيا تھا کہ دو دھماکے ہونے کے ساتھ ہی فائرنگ کی بھی آوازیں سنی گئیں۔ تاہم تحقیقات سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ ایک ہی دھماکہ ہوا تھا، اور فائرنگ کی آوازیں ان انتباہی شاٹس کا نتیجہ تھیں جو دھماکے کے فوراً بعد امریکی اور برطانوی فوجیوں کی جانب سے کی گئی تھی۔ 

میکنزی نے بتایا، ’’ایک ہی دھماکہ خیز ڈیوائس نے کم از کم 170 افغان شہری اور 13امریکی فوجیوں کو ہلاک کر دیا۔ گیٹ پر موجود ایک بڑے ہجوم میں بیئرنگ کے چھروں کے دھماکے سے مردوں اور خواتین کو نشانہ بنا کر یہ ہلاکت خیز حملہ کیا گيا۔‘‘

جس وقت یہ خود کش حملہ ہوا اس وقت ہزاروں مرد، خواتین اور بچے ملک سے باہر جانے والی پروازوں میں سوار ہونے کی مایوس کن کوشش کے لیے ایئرپورٹ کے باہر جمع ہو رہے تھے۔ طالبان نے اس حملے سے چند روز قبل ہی دارالحکومت کابل پر قبضہ کیا تھا اور بہت سے لوگوں میں ان کی جانب سے انتقامی کارروائی کے خدشات تھے اسی لیے افراتفری کا ماحول تھا۔

A man pulls a girl to get inside Hamid Karzai International Airport in Kabul
تصویر: REUTERS

حملے کو روکنا ممکن نہیں تھا 

اس حملے کی تفتیش کرنے والی ٹیم کے قائد بریگیڈیئر جنرل لانس کرٹیز کے مطابق حملے کو روکا نہیں جا سکتا تھا۔ انہوں نے کہا، ’’ہماری تحقیقات کی رو سے، تکنیکی سطح پر اسے روکا نہیں جا سکتا تھا۔‘‘

جنرل میکنزی نے بھی اسی بات کی نشاندہی کی کہ علاقے میں فوجیوں کے تمام حفاظتی ساز و سامان  اور بند و بست کے باوجود اسے روکنا بہت مشکل تھا: ’’اس دھماکہ خیز ڈیوائس کی پریشان کن تباہ کاری کی تصدیق اس بات سے ہوتی ہے کہ عالمی سطح کے جسمانی بکتر بند اور ہیلمٹ سے لیس ہونے کے باوجود امریکا کے 58 فوجی اس کی زد میں آ کر ہلاک یا پھر زخمی ہو گئے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ بکتر بند اور ہیلمٹ کی وجہ سے بیئرنگ کے چھروں سے ہونے والے تباہ کن اثرات کو کافی حد روکا بھی جا سکا تاہم ’’جسم کے جو اعضاء اس سے ڈھکے ہوئے نہیں تھے، ان پر تباہ کن چوٹیں آئیں۔‘‘

اس تفتیش میں طبی ماہرین اور دھماکہ خیز مواد کے ماہرین سمیت 100 سے زائد گواہوں سے شہادتیں جمع کی گئیں۔ ڈرونز اور دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والی فوٹیج اور تصاویر کی بھی جانچ پڑتال کی گئی تاکہ ان واقعات کی حقیقت آشکار اور واضح ہو سکے۔

کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد امریکا نے مختلف ممالک کی ایئر لائنز کی مدد سے، انخلا کا جو آپریشن شروع کیا تھا اس کے تحت تقریبا ایک لاکھ 26 ہزار افراد کو کابل سے نکالا گيا تھا۔

ص ز/ا ب ا (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)

کابل ایئرپورٹ پر لاپتہ ہونے والا بچہ خاندان کو مل گیا

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں