کائنات کے روشن اجسام کے حوالے سے حقائق آشکار
15 دسمبر 2011کسی ستارے کے تباہ ہونے سے جو توانائی پیدا ہوتی ہے اسے سُپر نووا کہتے ہیں.رواں برس چوبیس اکتوبر کو سائنسدانوں نے سُپر نووا " ایس این2011ایف ای" کے روشنی اور توانائی کے بے پناہ اخراج کے بعد وجود میں آنے کا مشاہدہ کیا۔ سائنسدانوں کے مطابق گزشتہ پچیس برسوں میں زمین کے نزدیک ترین وجود میں آنے والے اس سُپر نووا کا فاصلہ زمین سے 20.9 ملین نوری سال ہے۔ ایک نوری سال وہ فاصلہ ہوتا ہے جو روشنی ایک سال کے 365 دنوں میں طے کرتی ہے یعنی قریب 9.46 ٹرلین کلومیٹرز یا 5.87 ٹرلین میل۔
اس تحقیقی کام سے وابستہ معروف امریکی سائنسدان پیٹر نگینٹ نے اس حوالے سے بتایا کہ انہوں نے ستارے کی تباہی کے صرف گیارہ گھنٹوں بعد ہی اس سُپر نووا کو دریافت کر لیا تھا، جس کی بدولت وہ صرف بیس منٹ میں اس تباہی کا صحیح دورانیہ جانچنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس تحقیقی کاوش کی بدولت انہوں نے وہ چیزیں بھی دریافت کیں، جن کا کبھی خواب بھی نہیں دیکھا گیا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ سُپر نووا سے خارج ہونے والی روشنی ہی وہ پیمانہ ہے، جس کے ذریعے خلاء میں فاصلے ماپے جاتے ہیں اور یہی وہ چیز ہے ، جس نے رواں برس کا نوبل انعام جیتنے والوں کی دریافت میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ ان نوبل انعام یافتہ سائنسدانوں نے یہ ثابت کیا کہ کائنات کی وسعت کے عمل میں سست روی کے سابقہ نظریے کے برعکس کائنات کے پھیلاؤ کے عمل میں اسراع پیدا ہو رہا ہے۔
ماہرینِ فلکیات نے اب تک تین ایسی تحقیقی کاوشوں سے ٹائپ ون سُپر نوواز کے وجود میں آنے کے عمل کی وضاحت کی ہے۔ اس کائنات میں سُپر نووا کا عمل بہت کم ہوتاہے اور سائنسدانوں کے مطابق اس عمل کے وقوع پذیر ہونے میں سینکڑوں سال بھی لگ جاتے ہیں۔
ایک سُپر نووا کی طاقت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی روشنی کئی ہفتوں تک کسی مکمل کہکشاں سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ ایک کہکشاں دو سو بلین سے بھی زائد ستاروں کا ایک مجموعہ ہوتی ہے۔
سُپر نووا کے حوالے سے ابھی بھی کئی سوالات حل طلب ہیں۔ ان سوالوں کے جواب تیس سال بعد سامنے آنے کی توقع کی جا سکتی ہے، جب ہماری زمین کی ہمسائیگی میں ایک بار پھر کسی سُپرنووا کا مشاہدہ کیا جا سکے گا۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر ہم خوش قسمت ہوئے تو یہ واقعہ ہماری اپنی کہکشاں میں بھی پیش آ سکتا ہے۔
رپورٹ: شاہد افراز خان
ادارت: امجد علی