ڈھاکہ میں فائرنگ کے تازہ واقعات
26 فروری 2009بنگلی دیش کی وزیر اعظم نے قوم سے اپنے خطاب میں BDR کے باغی اہلکاروں کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ فوری طور پر ہتھیار ڈال کر بیرکوں میں واپس چلے جائیں ورنہ ان کے خلاف سخت کارروائی کی جا سکتی ہے۔
’’میرے صبر کا امتحان مت لیں۔ ہتھیار نہ ڈالنے کی صورت میں آپ کے خلاف سخت ترین ایکشن لیا جا سکتا ہے۔‘‘
بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے سپاہیوں کو تحمل کا مظاہرہ کرنے کے لئے کہا ہے۔ حسینہ واجد نے عوام سے پر امن رہنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایسے حالات میں پر تشدد کارروائیوں کا حصہ نہ بنیں۔
حکومت نے افواہوں کی روک تھام کے لئے ڈھاکہ میں موبائل فون سروس معطل کرنے کے احکامات جاری کر دئیے ہیں۔
ایک بنگلہ دیشی پولیس اہلکار کے مطابق بنگلہ دیش رائفلز کے ہیڈ کوارٹر میں ایک بار پھر فائرنگ شروع ہو گئی ہے جبکہ سیکیورٹی دستوں کو امید تھی کہ حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔
بنگلہ دیش رائفلز BDR نیم فوجی اہلکاروں کا ایسا ادارہ ہے جس کا کام ملکی سرحدوں کی نگرانی ہے مگر کبھی کبھی فوج کی امداد کے لئے بھی اس سے مدد طلب کی جاتی ہے۔ بنگلہ دیش رائفلز کے اعلیٰ افسران کا تعلق فوج سے ہوتا ہے۔ بنگلہ دیش رائفلز کے اہلکار مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان کے افسران کا تقرر بنگلہ دیش رائفلز ہی سے ہونا چاہئے نہ کہ فوج سے۔ اس کے علاوہ تنخواہوں اور مراعات پر تنازعات بھی مسلح بغاوت اور ہلاکتون کا سبب بنے۔
اس سے قبل حکام کا کہنا تھا کہ بدھ کے روز بنگلہ دیش رائفلز کے ہیڈ کوارٹر میں پیش آنے والے واقعات میں 50 افراد ہلاک ہوئے۔ مقامی پولیس کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں چھ اعلیٰ افسران بھی شامل ہیں۔
ذرائع کے مطابق بدھ کی صبح ہیڈکوارٹر پر سینئر افسران کی ایک سالانہ کانفرنس ہورہی تھی جس میں سپاہیوں کو اپنی شکایات درج کروانے کی اجازت تھی لیکن اپنی شکایات درج کروانے کی بجائے وقت پر تنخواہیں نہ ملنے کی وجہ سے ناراض نیم فوجی اہلکاروں نے ریگولر آرمی افسران کے خلاف اشتعال انگیز رویہ اختیار کیا اور فوجی افسران کو کانفرنس روم میں بند کردیا۔ حکام کا کہنا تھا کہ عام معافی کے اعلان کے بعد حالات قابو میں آ گئے تھے تاہم ایک بار پھر یہ آگ بھڑک اٹھی ہے بلکہ اس کا دائرہ مزید پھیل گیا ہے۔
مقامی پولیس کے ایک اہلکار نے خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا کہ بنگلہ دیش رائفلز کے اہلکاروں کی یہ بغاوت دیگر بہت سے قصبوں اور علاقوں تک بھی پھیل گئی ہے۔ ایک عینی شاہد کے مطابق شمال مشرقی علاقے میں بھی بنگلہ دیش رائفلز کے مسلح سپاہی سڑکوں پر آکر فائرنگ کر رہے ہیں۔
BDR کے ارکان نے ملک کے جنوب میں دو اضلاع کو ملانے والی ایک ہائی وے بھی بند کر رکھی ہے۔
ایک عرصے تک ایمرجنسی کے نفاذ اور فوج کے ہاتھ میں ملک کی باگ ڈور رہنے کے بعد بنگلہ دیش میں گذشتہ برس دسمبر میں عام انتخابات منعقد ہوئےتھے جن کے بعد یہ امید پیدا ہوگئی تھی کہ بحران کا شکار یہ ملک اب استحکام کی راہ پر گامزن ہوجائے گا۔ لیکن بدھ اور جمعرات کو دارالحکومت ڈھاکہ میں بنگلہ دیش رائفلز کے ہیڈکوارٹر میں پیش آنے والے واقعات نے تصویر کا رُخ پھر سے بدل کے رکھ دیا ہے۔
سابق فوجی جنرل سعید محمد ابراہیم نے ڈوئچے ویلے کو بتایا: ’’ واقعے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ایک عرصے سے خوف کا ماحول تھا۔ سپاہیوں کے پاس اور کوئی ذریعہ نہیں بچا تھا جس سے وہ اپنی جائز شکایات حکام تک پہنچا سکتے۔ گذشتہ دو برسوں سے ملک کے معاشی حالات ابتر ہیں اور سپاہیوں کو تنخواہیں بھی نہیں ملی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ان کے مطالبات پورے نہیں کئے جارہے تھے۔‘‘