1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈھاکہ میں فائرنگ کے تازہ واقعات

26 فروری 2009

بنگلہ دیشی دارالحکومت ڈھاکہ میں نیم فوجی دستوں کے ہیڈ کوارٹر میں جمعرات کے روز ایک بار پھر فائرنگ شروع ہو گئی ہے۔ تنخواہوں کے معاملات پر بغاوت میں بدھ کے روز 50 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

https://p.dw.com/p/H1h9
BDR کے ہیڈ کوارٹر کو بنگلہ دیشی فوج نے گھیرے میں لے رکھا ہےتصویر: picture-alliance/ dpa

بنگلی دیش کی وزیر اعظم نے قوم سے اپنے خطاب میں BDR کے باغی اہلکاروں کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ فوری طور پر ہتھیار ڈال کر بیرکوں میں واپس چلے جائیں ورنہ ان کے خلاف سخت کارروائی کی جا سکتی ہے۔

’’میرے صبر کا امتحان مت لیں۔ ہتھیار نہ ڈالنے کی صورت میں آپ کے خلاف سخت ترین ایکشن لیا جا سکتا ہے۔‘‘

بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے سپاہیوں کو تحمل کا مظاہرہ کرنے کے لئے کہا ہے۔ حسینہ واجد نے عوام سے پر امن رہنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایسے حالات میں پر تشدد کارروائیوں کا حصہ نہ بنیں۔

حکومت نے افواہوں کی روک تھام کے لئے ڈھاکہ میں موبائل فون سروس معطل کرنے کے احکامات جاری کر دئیے ہیں۔

Bangladesh Meuterei von Grenzsoldaten
عینی شاہدین کے مطابق فائرنگ کا سلسلہ ایک مرتبہ پھر شروع ہو گیا ہےتصویر: picture alliance / landov

ایک بنگلہ دیشی پولیس اہلکار کے مطابق بنگلہ دیش رائفلز کے ہیڈ کوارٹر میں ایک بار پھر فائرنگ شروع ہو گئی ہے جبکہ سیکیورٹی دستوں کو امید تھی کہ حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔

بنگلہ دیش رائفلز BDR نیم فوجی اہلکاروں کا ایسا ادارہ ہے جس کا کام ملکی سرحدوں کی نگرانی ہے مگر کبھی کبھی فوج کی امداد کے لئے بھی اس سے مدد طلب کی جاتی ہے۔ بنگلہ دیش رائفلز کے اعلیٰ افسران کا تعلق فوج سے ہوتا ہے۔ بنگلہ دیش رائفلز کے اہلکار مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان کے افسران کا تقرر بنگلہ دیش رائفلز ہی سے ہونا چاہئے نہ کہ فوج سے۔ اس کے علاوہ تنخواہوں اور مراعات پر تنازعات بھی مسلح بغاوت اور ہلاکتون کا سبب بنے۔

اس سے قبل حکام کا کہنا تھا کہ بدھ کے روز بنگلہ دیش رائفلز کے ہیڈ کوارٹر میں پیش آنے والے واقعات میں 50 افراد ہلاک ہوئے۔ مقامی پولیس کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں چھ اعلیٰ افسران بھی شامل ہیں۔

Bangladesch Ministerpräsidentin Sheikh Hasina Wazed
بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجدتصویر: Picture-alliance/dpa

ذرائع کے مطابق بدھ کی صبح ہیڈکوارٹر پر سینئر افسران کی ایک سالانہ کانفرنس ہورہی تھی جس میں سپاہیوں کو اپنی شکایات درج کروانے کی اجازت تھی لیکن اپنی شکایات درج کروانے کی بجائے وقت پر تنخواہیں نہ ملنے کی وجہ سے ناراض نیم فوجی اہلکاروں نے ریگولر آرمی افسران کے خلاف اشتعال انگیز رویہ اختیار کیا اور فوجی افسران کو کانفرنس روم میں بند کردیا۔ حکام کا کہنا تھا کہ عام معافی کے اعلان کے بعد حالات قابو میں آ گئے تھے تاہم ایک بار پھر یہ آگ بھڑک اٹھی ہے بلکہ اس کا دائرہ مزید پھیل گیا ہے۔

مقامی پولیس کے ایک اہلکار نے خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا کہ بنگلہ دیش رائفلز کے اہلکاروں کی یہ بغاوت دیگر بہت سے قصبوں اور علاقوں تک بھی پھیل گئی ہے۔ ایک عینی شاہد کے مطابق شمال مشرقی علاقے میں بھی بنگلہ دیش رائفلز کے مسلح سپاہی سڑکوں پر آکر فائرنگ کر رہے ہیں۔

Meuterei von Grenzsoldaten in Bangladesh
BDR کے اہلکار اپنے ایک زخمی ساتھی کو اٹھائےتصویر: AP

BDR کے ارکان نے ملک کے جنوب میں دو اضلاع کو ملانے والی ایک ہائی وے بھی بند کر رکھی ہے۔

ایک عرصے تک ایمرجنسی کے نفاذ اور فوج کے ہاتھ میں ملک کی باگ ڈور رہنے کے بعد بنگلہ دیش میں گذشتہ برس دسمبر میں عام انتخابات منعقد ہوئےتھے جن کے بعد یہ امید پیدا ہوگئی تھی کہ بحران کا شکار یہ ملک اب استحکام کی راہ پر گامزن ہوجائے گا۔ لیکن بدھ اور جمعرات کو دارالحکومت ڈھاکہ میں بنگلہ دیش رائفلز کے ہیڈکوارٹر میں پیش آنے والے واقعات نے تصویر کا رُخ پھر سے بدل کے رکھ دیا ہے۔

سابق فوجی جنرل سعید محمد ابراہیم نے ڈوئچے ویلے کو بتایا: ’’ واقعے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ایک عرصے سے خوف کا ماحول تھا۔ سپاہیوں کے پاس اور کوئی ذریعہ نہیں بچا تھا جس سے وہ اپنی جائز شکایات حکام تک پہنچا سکتے۔ گذشتہ دو برسوں سے ملک کے معاشی حالات ابتر ہیں اور سپاہیوں کو تنخواہیں بھی نہیں ملی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ان کے مطالبات پورے نہیں کئے جارہے تھے۔‘‘