1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ڈریسڈن کا واقعہ، مسلم انتہا پسندی کی نشاندہی‘

22 اکتوبر 2020

جرمن پولیس نے دو ہفتے قبل ڈریسڈن میں ایک شخص کو ہلاک جبکہ ایک دیگر کو زخمی کرنے کے شبے میں پناہ کے متلاشی ایک شخص کو گرفتار کر لیا ہے۔ استغاثہ اب اس حملے کو مبینہ دہشت گردانہ کارروائی کے تناظر میں پرکھ رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3kHVm
Deutschland Dresden nach Messerattacke | Verdacht islamistischer Tat
تصویر: Roland Halkasch/dpa/picture-alliance

بُدھ کے روز جرمن پراسیکیوٹر نے ایک بیان میں کہا کہ ڈریسڈن میں ایک شخص کو چاقو کے وار سے ہلاک اور ایک دیگر کو زخمی کرنے والا 20 سالہ شامی نوجوان غالباً اسلامی انتہا پسندانہ رجحان سے متاثر معلوم ہوتا ہے۔

پولیس کے مطابق اس شخص کو گزشتہ جمعرات کی شب مشرقی جرمنی کے تاریخی شہر ڈریسڈن سے گرفتار کر لیا گیا تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ مشتبہ شخص جائے وقوعہ پر شواہد کی جانچ پڑتال کے نتیجے میں حکام کی نظروں میں آیا۔

اس بارے میں جرمنی کے وزیر انصاف کرسٹینے لامبرشٹ نے کہا، ''تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ ڈریسڈن میں ہونے والے حملے کا پس منظر مسلم انتہا پسندی ہے۔‘‘ جرمن وزیر انصاف کا مزید کہنا تھا، ''مسلم انتہا پسندی ہمارے معاشرے کے لیے ایک بڑا اور مستقل خطرہ ہے، جس سے ہمیں پُر عزم طریقے سے نمٹنا ہے۔‘‘

جرمن اخبار بلڈ کے مطابق پولیس کو حملہ آور کے ہتھیار سے ڈی این اے کے آثار ملے ہیں۔ یہ ہتھیار پولیس نے جرم کے مقام کے نزدیک ہی سے برآمد کیا تھا۔ اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس ملزم کا ڈی این اے پہلے سے ہی پولیس ڈیٹا بیس میں موجود تھا جبکہ قتل کرنے والے اس شخص کا ریکارڈ پولیس کے پاس پہلے سی ہی موجود تھا۔

Deutschland Angriff auf Touristen in Dresden: Mann unter Mordverdacht
ڈریسڈن میں سیاحوں پر حملہ کرنے والے کی تلاش۔تصویر: Roland Halkasch/dpa/picture-alliance

 

مہلک حملہ

حکام کا کہنا ہے کہ مشتبہ شخص کا ایک وسیع مجرمانہ رکارڈ موجود ہے، جس میں اس شخص کی طرف سے غیر ملکی دہشت گرد تنظیم کی حمایت کے الزامات، جسمانی چوٹ کے الزامات اور دھمکیاں دینا وغیرہ شامل ہیں۔

جرمنی کے  وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر نے کہا کہ ڈریسڈن کے واقعے نے پھر سے اسلام پسندانہ تشدد کے خطرات کی طرف توجہ مبذول کروا دی ہے۔ زیہوفر نے مزید کہا، ''انتہا پسندی اور دہشت گردی کی جو بھی شکل ہو، انتہائی نگرانی ضروری ہے۔‘‘

جرمن جریدے ڈیئر اشپیگل کے مطابق مبینہ حملہ آور 2015ء میں جرمنی آیا تھا اور اس نے پناہ کی درخواست دی تھی۔ اگرچہ اس کی درخواست مسترد کر دی گئی تھی لیکن جرمنی میں ایسے پناہ گزینوں کو ''رواداری اسٹیٹس‘ دے دیا جاتا ہے لیکن انہیں جلا وطن نہیں کیا جا سکتا۔ اس اسٹیٹس کے ساتھ یہ شخص جرمنی میں موجود ہے۔

ڈریسڈن میں دہشت گردانہ حملے کا شکار ہونے والے دونوں افراد کا تعلق مغربی جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا سے تھا اور وہ اس صوبے ہی میں رہتے تھے۔ یہ دونوں ایک ساتھ مل کر ڈریسڈن جا رہے تھے۔ ڈریسڈن میں چاقو حملے کا شکار ہونے والا ایک 55 سالہ شخص ہسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا جبکہ ایک 53 سالہ بری طرح سے زخمی ہونے کے باوجود زندہ بچ گیا ہے۔

ک م/ ع ب / اے ایف پی ، ڈی پی اے ، رائٹرز

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں