ڈرانے دھمکانے کا طریقہ کار ختم ہونا چاہیے، چین
31 دسمبر 2019چینی وزیر خارجہ وانگ ژی نے آج منگل کو اپنے ایرانی ہم منصب جواد ظریف سے ملاقات کے دوران بین الاقوامی سطح پر 'ڈرانے دھمکانے‘ کے عمل کی کڑے الفاظ میں مذمت کی ہے۔ یہ ٹرمپ انتظامیہ کی خارجہ پالیسی پر چین کی جانب سے تازہ ترین تنقید تھی۔
وانگ ژی نے ظریف سے ملاقات کے آغاز پر ہی دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کو مضبوط کرنے کی بات کی۔ ژی نے اس موقع پر کہا،'' ہمیں یک جہتی نظام اور ڈرانے دھمکانے کی پالیسی کے خلاف مل کر کھڑے ہونا پڑے گا۔‘‘
وانگ ژی نے براہ راست امریکا کا نام لیے بغیر کہا کہ چین اور ایران اپنے اپنے قومی مفادات کا دفاع کریں گے۔ اس موقع پر ظریف نے کہا کہ دونوں ممالک متحد ہیں،''ہمارے مشترکہ اہدف یک جہتی کے خلاف جنگ کرنا اور 2020ء میں کثیر الجہتی کو فروغ دینا ہے۔‘‘
چین 2015ء میں ایران کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے پر دستخط کرنے والے ممالک میں شامل ہے۔ ساتھ ہی بیجنگ حکومت نے امریکا کی جانب سے اس معاہدے سے دستبرداری کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
ایرانی وزیر خارجہ روس کے دورے کے فوری بعد چین پہنچے تھے۔ یہ بحیرہ ہند میں روس، ایران اور چین کی بحریہ کی جنگی مشقوں کے بعد ان کا چین کا پہلا دورہ تھا۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان گینگ شوئنگ نے آج منگل کی بریفنگ میں کہا کہ چین 2015ء کے معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کی کوششیں جاری رکھے گا۔ انہوں نے اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں سے دستبردار ہونے اور ایران پر انتہائی دباؤ ڈالنے کی وجہ سے امریکا کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔
ان کے بقول ایران کے جوہری معاملات پر کشیدگی کی وجہ یہی ہے، '' ہمیں امید ہے کہ جوہری معاہدے کے تمام فریقین بیرونی دباؤ کو برداشت کرتے ہوئے، بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے اپنے اختلاف کو دور کرتے ہوئے جامع معاہدے کو برقرار رکھنے اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کی کوشش کریں گے۔‘‘
2015ء میں طے پانے والے اس جوہری معاہدے پر دستخط کرنے والوں میں ایران کے ساتھ ساتھ برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی، روس اور امریکا شامل تھے۔ امریکا 2018ء میں اس معاہدے سے الگ ہو گیا تھا اور اس کی جانب سے ایران پر عائد پابندیاں مزید سخت کر دی گئی تھیں۔
ع ا / ک م ( خبر رساں ادارے)