ڈاکٹر قدیر خان کی رہائی
6 فروری 2009اسلام آباد ہائی کورٹ نے بیرسٹر علی ظفر ایڈووکیٹ کی درخواست کی بنیاد پر اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ حکومت اور ڈاکٹر خان کے وکیلوں نے جس دستاویز پر دستخط کیے ہیں اور جس بنیاد پر ان کی نظر بندی کو چیلنج کرنے والی درخواست خارج کی جا رہی ہے اس کے مندرجات پبلک نہیں کئے جائیں گے۔
عدالت نے حکومت کو ڈاکٹر قدیر خان کے لئے خصوصی سیکورٹی انتظامات کرنے، علاج معالجہ کے لئے آزادانہ نقل و حرکت اور عزیز و اقارب سے ملنے کی اجازت دینے کی بھی ہدایت کی ہے۔ عدالت کے حکم کے بعد اپنی رہائش گاہ کے باہر ذرائع ابلاغ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر قدیر خان نے کہا کہ وہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف فی الوقت کسی عدالتی کارروائی کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔
’’زرداری صاحب کو انہوں نے آٹھ سال قید میں رکھا، بعض اوقات آپ کو برداشت کرنا پڑتا ہے اور حالات کو قبول کرنا پڑتا ہے نوازشریف صاحب آٹھ سال باہر رہے، انہوں نے کوئی قانونی دعوی کیا؟ انہوں نے کوئی جواب مانگا؟ ۔‘‘
دوسری طرف تجزیہ نگاروں کے خیال میں ڈاکٹر قدیر خان کی رہائی موجودہ حکومت کے لئے ایک کڑا امتحان تھا۔ اسی طرح اب ان کی حفاظت بھی ایک بڑا چیلنج ہو گی اس حوالے سے معروف تجزیہ نگار شفقت محمود نے بتایا ’’سیکورٹی کا مسئلہ تو ان کا ہے کیونکہ دنیا میں ڈاکٹر قدیر خان کا نام ایک بڑی متنازعہ شخصیت کے طور پر لیا جاتا ہے اور بہت سارے ایسے ایشوز ہیں جن پر ان کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے لیکن عدالت کا فیصلہ ہے تو اسے سب کو تسلیم کرنا چاہئے ۔‘‘
مبصرین کے خیال میں ڈاکٹر قدیر خان کی متنازعہ نظر بندی کا خاتمہ پاکستان کے اندر تو کسی حد تک اطمینان بخش ہو سکتا ہے تاہم ان کے متنازعہ ماضی کے سبب حکومت کو تنقید کا سامنا کرتے رہنا ہو گا اور اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکی انتظامیہ کے انتہائی زیر اثر انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی اس حوالے سے کیا موقف اختیارکرتی ہے کیونکہ ایجنسی کو اگرچہ کسی بھی فرد سے تفتیش کا اختیار حاصل نہیں ہے اس کے باوجود یہ بین الاقوامی ادارہ ڈاکٹر قدیر خان تک تفتیش کی غرض سے رسائی کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔