چین ہانگ کانگ کا معاملہ ’انسانی طریقے‘ سے حل کرے، صدر ٹرمپ
15 اگست 2019جمعرات پندرہ اگست کو سامنے آنے والی تصاویر میں ہزاروں چینی فوجی ہانگ کانگ کی سرحد کے قریب دیکھے جا سکتے تھے۔ چینی فوج کی بھاری نفری اس وقت ہانگ کانگ کی سرحد کے قریب چینی صوبے شین زین میں موجود ہے۔ اس کے ہم راہ سینکڑوں فوجی گاڑیاں اور ٹرک بھی ان تصاویر میں واضح نظر آتے تھے۔
چین ہانگ کانگ میں کیا کرنے کو ہے؟
ہانگ کانگ کے شہری کیوں مسلسل مظاہرے کر رہے ہیں؟
چین کے سرکاری میڈیا نے رواں ہفتے ہی کہا تھا کہ پیپلز آرمڈ پولیس کے بعض دستے، جو مرکزی عسکری کمیشن کے زیر نگرانی کام کرتے ہیں، شین زین میں جمع ہو رہے ہیں۔
یہ عسکری نقل و حرکت ایک ایسے موقع پر دیکھی جا رہی ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کے ساتھ کسی بھی تجارتی معاہدے کو ہانگ کانگ میں سیاسی بحران کے پرامن حل سے نتھی کر دیا ہے۔ چین کا نیم خود مختار علاقہ ہانگ کانگ گزشتہ دس ہفتوں سے شدید مظاہروں کی زد میں ہے۔
واشنگٹن حکومت کی جانب سے چینی سکیورٹی فورسز کے ہانگ کانگ کی سرحد پر اجتماع پر گہری تشویش ظاہر کی گئی ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ ہانگ کانگ میں مظاہرین جمہوری اصلاحات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں ٹرمپ نے کہا، ''چین میں لاکھوں ملازمتیں ختم ہو رہی ہیں۔ ہزاروں کمپنیاں چین چھوڑ رہی ہیں۔ ظاہر ہے چین چاہتا ہے کہ امریکا کے ساتھ تجارتی معاہدہ ہو جائے۔ انہیں پہلے ہانگ کانگ کا مسئلہ انسانی طریقے سے حل کرنا چاہیے۔‘‘
ٹرمپ کا ایک اور ٹویٹ میں کہنا تھا، ''مجھے ذرا بھی شک نہیں کہ صدر شی جن پنگ چاہتے ہیں کہ یہ معاملہ جلد اور بہتر طریقے سے حل ہو، وہ یقیناﹰ ایسا کر سکتے ہیں۔‘‘
یہ بات بھی اہم ہے کہ سن 1997 میں برطانیہ نے ہانگ کانگ کا انتظام واپس چین کے سپرد کر دیا تھا۔ اس وقت ایک معاہدہ طے کیا گیا تھا، جس کے تحت ہانگ کانگ کے لوگوں کے لیے زیادہ شہری آزادیاں یقینی بنائی گئی تھی، تاہم حالیہ مظاہرے 1997 کے بعد سے اس شہر میں ہونے والے سب سے بڑے احتجاجی اجتماعات ہیں۔
ع ت، م م (روئٹرز، اے ایف پی، اے پی)