1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین اور بھارت کے مابین لداخ میں جھڑپیں حالات مزید کشیدہ

صلاح الدین زین ڈي ڈبلیو نیوز، نئی دہلی
31 اگست 2020

چین اور بھارت کے فوجیوں کے مابین لداخ میں تازہ جھڑپوں کی اطلاعات ہیں جس کے بعد سے چینی فضائیہ کے طیارے لائن آف ایکچوول کنٹرول (ایل اے سی) کے آس پاس فضا میں گشت کر رہے ہیں اور حالات کشیدہ بتائے جا رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3ho56
Indien Kaschmir Soldaten an der Grenze zu China
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/S. Hameed

بھارت کا دعوی ہے کہ مشرقی لداخ میں پیونگانگ جھیل کے جنوبی علاقے میں چینی فوج نے صورت حال کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جسے بھارتی فوج نے ناکام بنا دیا ہے۔ نئی دہلی میں حکومت کی طرف سے جاری بیان میں اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ واقعہ 29 اور 30 اگست کی درمیانی شب کا ہے۔ تاہم اس عسکری کارروائی سے متعلق تفصیلات نہیں بتائی گئی ہیں کہ آخر جھڑپوں کی نوعیت کیا تھی اور کیا فائرنگ کا کوئی واقعہ پیش آیا یا پہلے کی طرح اس بار بھی ہاتھا پائی ہوئی۔

 بھارتی فوج کے بیان کے مطابق چین کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کے مقصد سے فوجی اور سفارتی سطح پر بات چیت کے دوران جن امور پر اتفاق ہوا تھا، چینی فوج نے اس کی مخالفت کی اور '' پی ایل اے نے موجود ہ صورت کو تبدیل کرنے کی اشتعال انگیز حرکت کی۔ بھارتی فوج کو اس کا پتہ چل گیا، اس نے اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے اقدامات کیے اور چینی کوششوں کو ناکام بنا دیا گیا۔ بھارتی فوج بات چیت کے ذریعے امن و امان کے قیام کے لیے پرعزم ہے تاہم اس کے ساتھ ہی وہ اپنی سالمیت کے تحفظ کے لیے بھی پر عزم ہے۔''

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اس معاملے کو حل کرنے کے لیے بریگیڈیئر کمانڈروں کی سطح کی بات چیت بھی چوشلو میں جاری ہے۔ لداخ کی معروف جھیل پیونگ یانگ کے شمالی علاقے میں بھارت اور چین کے درمیان حالات پہلے سے کشیدہ تھے اور گزشتہ مئی سے دونوں کے درمیان اسے حل کرنے کے لیے کئی دور کی بات چیت ہوچکی ہے تاہم جھیل کے جنوب میں اس طرح کی جھڑپیں پہلی بار ہوئیں اور دفاعی ماہرین کے مطابق دونوں کے درمیان یہ ایک نیا محاذ کھڑا ہو گیا ہے۔

ان تازہ جھڑپوں سے متعلق بھارتی فوج نے کوئی تفصیلات نہیں بتائی تاہم خطے میں تعینات فوجی ذرائع نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ دونوں جانب کے فوجیوں کے درمیان زبردست ہاتھا پائی ہوئی۔ ''چینی فوجیوں کی بھی کافی تعداد تھی اور دونوں فوجیوں کے درمیان ہاتھ پائی ہوئی اور ایک دوسرے کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی گئی۔ یہ سلسلہ 29 اگست کی درمیانی شب شروع ہوا اور صبح تک جاری رہا۔''

لداخ میں اس وقت بھارت اور چین کے کئی ہزار فوجی لائن آف ایکچوؤل کنٹرول کے دونوں جانب تعینات ہیں اور گزشتہ چار ماہ سے حالات کشیدہ ہیں تاہم اس واقعے کے بعد خطے میں فوجی نقل و حرکت میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ بھارتی خبر رساں اداروں کے مطابق چین نے ایل اے سی کے پاس اپنی فضائی بیس ہوٹن پر جے ایف جنگی طیارے تعینات کر دیے ہیں جو لداخ میں سرحد سے بالکل متصل مسلسل پرواز کر رہے ہیں۔

اس دوران بھارتی فوجی سربراہ جنرل منوج مکند نروانے بھی سرحد پر تعینات فوجی کمانڈروں سے بات چیت کی ہے۔ انہوں نے ایل اے سی پر تعینات فوجی کمانڈروں سے بات چیت میں مزید چوکسی برتنے کو کہا ہے اور کسی بھی صورت حال سے تیار رہنے کو کہا گیا ہے۔

Indien China Konflikt Indian Air Force
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa

بھارتی فوج کے سابق سینیئر افسر جنرل اتپل بھٹا چاریہ کا کہنا ہے کہ پیونگانگ جھیل میں جس نوعیت کا تنازعہ ہے اس میں اس نوعیت کی جھڑپیں کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں انہوں نے کہا، ''لداخ میں جس بڑے پیمانے پر فریقین میں اختلافات ہیں اور جس طرح مسلسل کشیدگی کا ماحول ہے اس میں اس طرح کی چیزیں اس وقت تک ہوتی رہیں گی جب تک معاملہ حل نہیں ہوجاتا۔ چونکہ سرحد پر فوجیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں تواس طرح کی جھڑپیں مستقبل بھی ہونا بعید ازا قیاس نہیں ہے۔''

 بھارت کا موقف ہے کہ ایل اے سی پر رواں برس اپریل تک جو پوزیشن تھی اس کو بحال کیا جائے اور کشیدگی کو کم کرنے کے لیے دونوں ملکوں کی فوجوں کو پہلے کی پوزیشن پر واپس چلے جانا چاہیے۔ اس سلسلے میں بعض علاقوں میں کچھ پیش رفت بھی ہوئی ہے اور دونوں جانب کی فوجیں کچھ حد تک پیچھے ہٹی ہیں تاہم بیشتر متنازعہ علاقوں میں صورتحال کشیدہ ہے۔

اس بارے میں سب سے بڑا مسئلہ لداخ کی معروف جھیل پیونگانگ ہے جس میں پہلے بھارت فنگر آٹھ تک گشت کرتا تھا تاہم اب اسے فنگر چار تک ہی رسائی حاصل ہے۔ دوسرا ڈیپسنگ کا علاقہ ہے جہاں دفاعی ماہرین کے مطابق چین پہلے کے مقابلے تقریباً 22 کلومیٹر اندر آگیا ہے۔ بھارتی فوجی ذرائع  کے مطابق ڈیپسنگ میں باٹل نیک کے پاس ایک مقام کا نام  '120 کلو میٹر' ہے جہاں پہلے بھارتی فضائیہ کی ایک بیس ہوا کرتی تھی تاہم اس وقت یہ بیس چین کے پاس ہے۔ دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ ذرا پیچیدہ ہے اور اسے حل کرنے میں کافی وقت لگ سکتا ہے۔

بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے چند روز قبل ایک انٹرویو کے دوران اس صورت حال کو بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ فی الوقت سرحد پر سن 1962 کے بعد سے سب سے زیادہ سنگین صورت حال ہے۔ '' 45 برس بعد پہلی بار سرحد پر فوجی ہلاک ہوئے ہیں اور دونوں جانب سے جتنی بڑی تعداد اس وقت ایل اے سی پر فوج تعینات ہے وہ غیر مثالی ہے۔'' 

وزیر خارجہ کے اس بیان سے چند روز قبل ہی بھارت کے 'چیف آف ڈیفینس اسٹاف' جنرل بپن راوت، جو فوج کے سابق سربراہ ہیں، نے چین کے ساتھ فوجی کارروائی کے آپشن کھلے ہونے کی بات کہی تھی۔ ان کا کہنا تھا، ''بھارت کے پاس عسکری متبادل موجود ہیں لیکن ان کا استعمال اسی صورت میں کیا جائے گا جب بات چیت ناکام ہو جائے۔''  

چین کے سرحدی تنازعات

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں