میرے اور عدلیہ کے خلاف گھناؤنی مہم شروع ہو گئی
20 دسمبر 2019
پاکستان کے چھبیسویں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ آج رات بارہ بجے اپنے عہدے سے ریٹائر ہوجائیں گے۔ ان کی جگہ سینئر ترین جج جسٹس گلزار احمد 21 دسمبر کو بطور چیف جسٹس آف پاکستان اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔
آج ان کی ریٹائرمنٹ کے سلسلے میں ان کے اعزاز میں ایک فل کورٹ ریفرنس منعقد کیا گیا۔ اس فل کورٹ ریفرنس میں سپریم کورٹ کے ججز، وائس چئیرمین پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار کے صدر شریک ہوئے۔ گو اس ریفرنس میں جسٹس قاضی فائز عیسی شریک نہ ہو سکے۔ سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس کے اعزاز میں آج ان کی مدت ملازمت کے آخری روز عشائیے کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔
فل کورٹ ریفرنس میں آج انہوں نے اپنے الوداعی خطاب میں کہا کہ عدلیہ کے خلاف گھناؤنی مہم کا آغاز ہو گیا ہے لیکن سچ ہمیشہ غالب رہتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ہمیشہ اپنے حلف کی پاسداری کی اور بلا خوف و خطر غیر جانبداری سے فیصلے کیے اور کسی کے رد عمل کی پرواہ کیے بغیر وہی کیا جس کو درست سمجھا۔ اپنے خطاب کے دوران انہوں نے معروف اردو شاعرہ فہمیدہ ریاض کی نظم ٬٬ فیض کہتے ہیں ٬٬ کے چند اشعار بھی پڑھے۔ ۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ ۲۱ دسمبر انیس سو چون کو ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئے۔ جسٹس کھوسہ گورنمنٹ کالج لاہور کے فارغ التحصیل ہیں جہاں انھوں نے انگریزی ادب پڑھا۔ اس کے بعد لندن کیمبرج سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ ۱۹۹۸ میں ہائیکورٹ کے جج مقرر ہوئے اور ۲۰۱۰ میں انھیں سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا گیا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ۱۹۹۹ میں سابق آرمی ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے حلف نامے کے تحت حلف اٹھایا تھا۔ دو ہزار سات میں انھوں نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کا ساتھ دیا تھا اور مشرف کے حکم نامے کے تحت حلف اٹھانے سے انکار بھی کر دیا تھا۔ اپنے مدت ملازمت کے دوران انھون نے پچپن ہزار مقدمات کا فیصلہ کیا۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنی مدت ملازمت کے دوران بہت سے اہم فیصلے کیے جس میں توہین مذہب کے مقدمے میں آسیہ بی بی کا فیصلہ بھی شامل ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ممتاز قادری کی سزائے موت کو برقرار رکھا اور آسیہ بی بی کی رہائی کا فیصلہ ہوا۔ وہ اس بنچ کا حصہ بھی رہے جس کے تحت سابق وزیراعظم یوسف رجا گیلانی کو نا اہل کیا گیا تھا۔ آصف سعید کھوسہ پاناما کیس سننے والی بنچ کا بھی حصہ رہے۔ اسی مقدمے کے فیصلے میں جسٹس کھوسہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں مشہور ناول گاڈ فادر کے ایک ڈائیلاگ کا حوالہ بھی دیا کہ ہر بڑی خزانے کے پس منظر میں ایک جرم چھپا ہوتا ہے۔ ان کا یہ اختلافی نوٹ زبان زد عام رہا۔ انہوں نے جسٹس شوکت صدیقی کی بر طرفی کا فیصلہ بھی لکھا۔ جہاں ان کے کچھ فیصلوں پر ان کو بہت سراہا گیا وہیں چند فیصلوں پر ان کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔
حالیہ دنوں میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع اور سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے فیصلے کی بابت جسٹس کھوسہ کا نام پاکستانی میڈیا پر موضوع گفتگو رہا۔