چھتیس گڑھ میں ستائیس پولیس اہلکار ہلاک
30 جون 2010بھارتی ریاست چھتیس گڑھ میں ماؤ باغیوں کے خلاف حکومتی آپریشن کے سربراہ رام نیواس نے بتایا ہے کہ جدید اسلحے سے لیس باغیوں کے ایک بڑے گروہ نے یہ حملہ ریاستی دارالحکومت رائے پور سے تین سو کلو میٹر دور واقع ڈھوڈائی کے مقام پر کیا۔
رام نیواس نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ ایک پہاڑی پرموجود باغیوں نے خود کار ہتھیاروں سے اچانک ہی فائرنگ شروع کر دی۔ انہوں نے کہا کہ جواب میں پولیس اہلکاروں نے بھی فائرنگ کی اور یہ چھڑپ کوئی تین گھنٹے تک جاری رہی۔ انہوں نے بتایا کہ اس جھڑپ کےدوران کم از کم 26 پولیس اہلکار ہلاک جبکہ کئی زخمی ہوئے۔ رام نیواس کے مطابق کئی زخمیوں کو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا اوراسی دوران مزید کمک بھی بلوا لی گئی۔
رواں سال اپریل میں بھی ماؤ نواز باغیوں کے ایک ایسے ہی حملے میں کم ازکم 76 پولیس اہلکار مار دئے گئے تھے۔
بھارتی حکومت نےگزشتہ سال ہی ماؤ نواز باغیوں کے خلاف باقاعدہ عسکری کارروائی شروع کی تھی تاہم اس کے بعد ماؤ باغیوں کے حملوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
بھارت کی مشرقی اور وسطی ریاستوں میں ماؤ نواز باغی حکومتی رٹ کے خلاف محاز آرا ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اس علیٰحدگی پسند گروہ کو اُن کسانوں اور عام لوگوں کی حمایت بھی حاصل ہے، جو ملکی اقتصادی ترقی سے محروم ہیں۔ ماؤ باغیوں کا کہنا ہے کہ وہ دیہی علاقوں میں بسنے والے ان لوگوں کے حقوق کے لئے لڑ رہے ہیں، جنہیں حکومت نے نظر انداز کر رکھا ہے۔
گزشتہ ماہ ہی ماؤ نواز باغیوں کے ایک مبینہ حملے میں مغربی بنگال میں 146 افراد اُس وقت ہلاک ہو گئے تھے جب کولکتہ سے ممبئی جانے والی ایک مسافر بردار ٹرین پٹری سے اتر کر ایک مال بردار ٹرین سے ٹکرا گئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ ماؤ باغیوں نے ٹرین کی پٹری کا ایک حصہ کاٹ دیا تھا جس کی نتیجے میں یہ حادثہ پیش آیا تھا۔
باغیوں کے حملوں کے سلسلے نے بھارتی حکومت کو پریشان کر رکھا ہے اور حکمران سیاسی اتحاد پردباؤ بڑھتا جا رہا ہے کہ اس بغاوت کے خاتمے کےلئے مؤثر کارروائی کی جائے۔ بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ بھی ماؤ نواز باغیوں کو ملکی سلامتی کے لئے ایک بڑا خطرہ قرار دے چکے ہیں۔ اب بھارتی حکومت پر یہ دباؤ بھی دیا جا رہا ہے کہ اس بغاوت کے خاتمے کے لئے فوج اور فضائیہ کی مدد بھی لی جائے۔ دوسری طرف بھارتی فوج اس تنازعے کے حل میں براہ راست طور پر ملوث ہونے کے حق میں نہیں۔
موجودہ حکمت عملی کے مطابق نیم فوجی دستے اور پولیس، ماؤ نواز باغیوں کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں۔ ماؤ نواز باغیوں کے بارے میں کوئی مصدقہ اطلاعات نہیں کہ وہ کس طرح کی طاقت رکھتے ہیں تاہم یہ واضح ہےکہ ان کے پاس کوئی 10 سے 20 ہزار گوریلا جنگجو موجود ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ ان جنگجوؤں نے جنگلات میں خفیہ اڈے بنائے ہوئے ہیں اور وہیں پر تربیت حاصل کرنے کے بعدحکومت مخالف کارروائیاں کرتے ہیں۔ سیکیورٹی فورسز کے مطابق ماؤ باغیوں کی کمائی کے اہم ذرائع لوٹ مار اور اغواء برائے تاوان کی وارداتیں ہیں جبکہ ان باغیوں نے دوردراز کے کچھ دیہی علاقوں میں ٹیکس لینے کا اپنا ہی طریقہ وضع کیا ہوا ہے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: شادی خان سیف