چند خوفزدہ شامی مہاجرین کا جرمنی سے واپسی پر غور
7 اکتوبر 2016ایسے کئی شامی پناہ گزین جرمنی کے مشرقی صوبے سیکسنی میں مقیم ہیں، جو اسلام مخالف تحریک پیگیڈا کا گڑھ ہے اور وہاں غیر ملکیوں سے نفرت اور پناہ گزینوں کی رہائش گاہوں پر حملوں کے واقعات اکثر دیکھنے میں آتے ہیں۔
فارس قصاص نامی ایک شامی مہاجر جس پر ایک ٹرین میں سفر کے دوران بئیر کی ایک بوتل سے حملہ کیا گیا تھا، کا کہنا ہے، ’’یہاں ہم بہت خوف زدہ ہیں۔ ایک شخص نے میری جانب اس وقت بیئر کی شیشے کی بوتل پھینکی، جب ٹرین چلنے سے پہلے اس کا دروازہ بند ہونے کو تھا۔ میں ایسی صورت میں کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا۔‘‘ قصاص جرمنی میں اب تک ایک پناہ گزین کی حیثیت سے مقیم ہے، جو اب ترکی جانے پر غور کر رہا ہے، جہاں اس کے والدین رہتے ہیں۔
ایک دوسرے شامی پناہ گزین محمد الخُدری نے بتایا کہ ایک شام اسے ایک کار میں سوار چند لٹھ بردار افراد نے پیٹ ڈالا تھا۔ الخُدری کے مطابق اب وہ شام چھ بجے کے بعد اپنی رہائش گاہ سے باہر نکلنے سے اجتناب کرتا ہے۔ الخُدری نے بتایا، ’’حد سے زیادہ مسلسل ذہنی تناؤ کے باعث اب میرے معدے میں تکلیف رہنے لگی ہے۔‘‘
جرمن صوبے سیکسنی میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی اسلام مخالف تحریک کے سخت گیر حامیوں کی جانب سے پناہ گزینوں کے خلاف اور مہاجرین مراکز پر حملوں میں اب تک کافی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں وہاں ایسے 235 حملوں کے مقابلے میں گزشتہ برس یہ تعداد 784 رہی تھی۔
قصاص اور الخُدری دونوں فرائی ٹال نامی ایک چھوٹے سے شہر میں رہائش پذیر ہیں۔ اسی علاقے میں دو نیو نازی گروپوں نے گزشتہ برس پناہ گزینوں پر حملوں کے منصوبے بنائے تھے، تاہم ان منصوبوں کو جرمن سکیورٹی فورسز نے قبل از وقت ہی ناکام بنا دیا تھا۔
گزشتہ ماہ جرمن حکومت کی جانب سے ایک رپورٹ شائع کی گئی تھی، جس میں سابقہ مشرقی اور مغربی جرمن ریاستوں کے اتحاد کے بعد کی ایک چوتھائی صدی کا جائزہ لیتے ہوئے وفاقی حکومت نے متنبہ کیا تھا کہ ملک کے مشرقی (نئے) صوبوں میں غیر ملکیوں سے بڑھتی ہوئی نفرت اور دائیں بازو کی انتہا پسندی وہاں امن عامہ کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتی ہے۔
گزشتہ برس قریب دس لاکھ مہاجرین کی جرمنی آمد نے جرمن معاشرے کو فکری سطح پر دو حصوں میں بانٹ دیا ہے۔ وفاقی اور تمام صوبائی حکومتیں ان قریب ایک ملین پناہ گزینوں کے معاشی اور سماجی انضمام کی کوششوں میں مصروف ہیں جبکہ گزشتہ کچھ عرصے سے ملک کے مختلف حصوں میں مہاجرین اور ان کی رہائش گاہوں پر حملوں میں اضافہ بھی دیکھا گیا ہے۔