1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’چاہے کچھ بھی ہو، ميں يورپ جا کر رہوں گا‘

عاصم سليم21 دسمبر 2015

اردن سے حال ہی ميں ملک بدر کيے جانے والے سوڈانی پناہ گزينوں ميں سے ايک نے اپنی روداد سنائی، جس کے مطابق حکام نے تشدد کا استعمال کرتے ہوئے رجسٹرڈ مہاجرين کو بھی واپس بھيج ديا۔ عمان حکومت نے ايسی خبروں کو مسترد کر ديا ہے۔

https://p.dw.com/p/1HR8q
تصویر: Getty Images/AFP/V. Simicek

’’ميں سمندری راستہ اختيار کروں گا، چاہے کچھ بھی ہو ميں ہر صورت يہاں سے فرار ہوں گا۔‘‘ يہ الفاظ ہيں سوڈان سے تعلق رکھنے والے احمد دوری کے،جنہوں نے شمال مشرقی افريقہ کے اس ملک کے دارفور نامی علاقے سے پناہ حاصل کرنے کے ليے اردن کا رخ کيا۔ تاہم اردنی حکام نے بڑی بے رحمی کے ساتھ اسے ملک بدر کر ديا، یہی رسوائی اور ناکامی آج دوری کے يورپ پہنچنے کے عزم کا سبب بن رہی ہے۔ دوری نے سوڈانی دارالحکومت خرطوم سے نيوز ايجنسی ايسوسی ايٹد پريس سے بات کرتے ہوئے اپنی روداد سنائی۔

جنگ زدہ علاقے دارفور سے پناہ کے ليے بتيس سالہ احمد دوری نے گزشتہ برس اردن کا رخ کيا تھا۔ دارالحکومت عمان ميں اس نے اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين UNHCR کی مقامی شاخ ميں اندراج کرايا اور پھر چھوٹی موٹی نوکرياں کر کے اپنا اور اپنی بيوی کا پيٹ پالا۔ مقامی حکام کے ہاتھوں امتيازی سلوک کے سبب دوری نے اقوام متحدہ کے دفتر کے باہر ايک احتجاجی کيمپ ميں رہائش اختيار کر لی، جہاں اسے ديگر سوڈانی شہری بھی ملے۔ بعد ازاں گزشتہ بدھ کے روز اردنی حکام نے کيمپ پر دھاوا بول کر احتجاج کرنے والے پناہ گزينوں کو گاڑيوں ميں بھر کر ہوائی اڈے کی طرف روانہ کر ديا۔

احمد دوری نے بتايا، ’’ احتجاجی کيمپ اقوام متحدہ کے دفتر کے قريب واقع ہونے کی وجہ سے ہميں محفوظ ہونے کی غلط فہمی ہوئی تھی۔‘‘ اس کے بقول جو کچھ کمیپ کے مکینوں کے ساتھ ہوا، اس کے بعد انہيں اقوام متحدہ پر اعتماد نہيں رہا۔ يہ امر اہم ہے کہ دوری واحد ايسا سوڈانی مہاجر نہيں، جس کے اس عالمی ادارے کے بارے ميں ايسے خيالات ہيں، اردن ميں موجود اکثريتی سوڈانی پناہ گزين اسی موقف کے حامل ہيں۔

دوری نے بتایا، ’’ہم سب کو مارا پيٹا گيا اور جو کوئی نيچے زمين پر گر گيا، حکام انہیں پيروں تلے روند ڈالا، سکیورٹی دستوں نے علی الصبح کارروائی شروع کی اور گالی گلوچ کرتے ہوئے کيمپ ميں موجود لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنايا۔ اہلکاروں نے آنسو گيس اور ربڑ کی گولياں بھی استعمال کيں۔ ايک موقع پر انہوں نے ايک حاملہ عورت کو زمين پر دھکيل ديا اور گرنے کے سبب اس کی ايک ٹانگ ٹوٹ گئی اور بچہ وقت سے قبل پیدا ہو گیا۔‘‘

اردن ميں شام اور عراق کے لاکھوں پناہ گزين مقيم ہيں
اردن ميں شام اور عراق کے لاکھوں پناہ گزين مقيم ہيںتصویر: picture-alliance/AP Photo/Mohammed Zaatari

سوڈان سے تعلق رکھنے والے اس پناہ گزين دوری کے بقول حکام نے گاڑيوں ميں اتنے زيادہ مہاجرين بھر ليے تھے کہ انہیں سانس لينے میں بھی دشواری کا سامنا اور اسی حالت ميں انہيں بين الاقوامی ہوائی اڈے پہنچا دیا گیا۔ اس نے مزيد کہا، ’’تمام پناہ گزينوں کے ہاتھوں ميں ہتھکڑياں لگی ہوئی تھيں ليکن اس کے باوجود حکام نے مارپیٹ اور گالی گلوچ کا سلسلہ جاری رکھا۔ اسی دوران ایک اور حاملہ عورت بچے کو جنم دے دیا۔‘‘

بعد ازاں جمعے کے روز ان پناہ گزينوں کو ہوائی جہاز پر سوار کر کے سوڈان روانہ کر ديا گيا۔ اردنی حکومت کے ترجمان نے پناہ گزينوں کے خلاف تشدد کے استعمال کی تمام رپورٹوں کو مسترد کر ديا ہے۔ دريں اثناء اقوام متحدہ کی ترجمان عوئفی مکڈونل نے بتايا ہے کہ ملک بدر کيے جانے والے اکثريتی پناہ گزين ايسے تھے جن کا اندراج کیا جا چکا تھا لیکن ڈی پورٹ کيے جانے والوں کی اصل تعداد تاحال واضح نہيں ليکن ان کا ادارہ ان کے ليے فکر مند ہے۔