چاول کی پیداوار بڑھانے والا جین دریافت
3 دسمبر 2013اس نئے دریافت شدہ جین کو SPIKE کا نام دیا گیا ہے۔ فلپائن میں قائم اس انسٹیٹیوٹ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق ابتدائی تجربات سے معلوم ہوا ہےکہ دنیا میں سب سے زیادہ اگائی جانے والی چاول کی اقسام ’انڈیکا‘ رائس ورائیٹیز میں جب اس جین کو شامل کیا گیا تو اس فصل کی پیداوار میں 13 سے 36 فیصد تک کا اضافہ ہوا۔
انٹرنیشنل رائس ریسرچ انسٹیٹیوٹ IRRI کی ’جینیٹک ٹرانسفارمیشن لیبارٹری‘ کے سربراہ Inez Slamet-Loedin کی طرف سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق: ’’ہماری تحقیق یہ بتاتی ہے کہ بلاشبہ SPIKE ایک ایسا اہم جین ہے جو چاول کی پیداوار بڑھانے کا ذمہ دار ہے اور جس کی تلاش کے لیے برسوں سے کام جاری تھا۔‘‘
IRRI کی طرف سے شروع کیے جانے والے SPIKE بریڈنگ پروگرام کے سربراہ سوٹومو ایشیمارو (Tsutomu Ishimaru) کے مطابق اس جین کے ساتھ تیار کی جانے والی چاول کی نئی اقسام کی تجرباتی کاشت کا عمل ایشیا کے متعدد ترقی پذیر ممالک میں جاری ہے۔ ایشیمارو کے مطابق: ’’ہمیں یقین ہے کہ جب یہ نئی ورائیٹیز باقاعدہ کاشت کے لیے دستیاب ہو جائیں گی تو اس سے ان ممالک میں خوراک کی کمی سے متعلق مسائل میں کمی لانے میں مدد ملے گی۔‘‘
تاہم ابھی تک کوئی حتمی ٹائم ٹیبل نہیں دیا گیا کہ SPIKE جین کی حامل چاول کی قسم کب تک تجارتی سطح پر کاشتکاری کے لیے کسانوں کو دستیاب ہو سکے گی۔
IRRI کی ترجمان گلیڈیز ایبرون (Gladys Ebron) کے مطابق SPIKE جین کو پہلی بار جاپانی محقق نوبویا کوبایاشی (Nobuya Kobayashi) نے دریافت کیا تھا۔ اس مقصد کے لیے وہ 1989ء سے گرم مرطوب علاقوں میں اگائی جانے والی قسم ’جاپونیکا‘ Japonica پر تحقیق میں مصروف تھے۔ یہ قسم انڈونیشیا میں اگائی جاتی ہے۔
پیداوار میں اضافے کا مطلب ہے کہ زمین کے اتنے ہی رقبے پر کاشت کے لیے دستیاب سہولیات کی اسی مقدار کے استعمال سے کاشت کاروں کو چاولوں کی کہیں زیادہ مقدار مل پائے گی۔
ایبرون نے واضح کیا کہ جین کی یہ منتقلی جینیٹک ماڈیفیکیشن کے زمرے میں نہیں آتی جو خوراک کی پیداوار کے حوالے سے ایک متنازعہ موضوع ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’یہ محض روایتی طریقہ کاشت ہے۔‘‘
چاول ترقی پذیر ممالک میں اہم ترین غذائی فصل ہے، جسے دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی استعمال کرتی ہے۔ IRRI کے مطابق ان میں 640 ملین ایسے ایشیائی باشندے بھی شامل ہیں جو خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔