1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چاقو زنی کی وارداتوں سے جرمن پولیس پریشان

عنبرین فاطمہ/ نیوز ایجنسیاں
3 اپریل 2018

جرمنی میں چاقو زنی کے جان لیوا واقعات کے بعد پولیس ملازمین کی یونین پارلیمان پر زور دے رہی ہے کہ  وہ اس جرم کو قتل کی کوشش کے زمرے میں لانے کی اجازت دے۔ فی الحال یہ جرم جسمانی نقصان پہنچانے کے زمرے میں آتا ہے۔

https://p.dw.com/p/2vQI9
Messer Messer Attacke Angriff Gewalt Gesellschaft
تصویر: picture-alliance/dpa

جرمن پولیس کی ٹریڈ یونین DPoIG کا کہنا ہے کہ چاقو رکھنے کے واقعات میں زیادہ تر نوجوان مہاجر لڑکے ملوث ہوتے ہیں۔ ایسے کیسوں میں ملوث ہونے والوں پر اقدام قتل کی دفعات عائد ہونی چاہیں۔ اس کے علاوہ یونین نے یہ بھی زور دیا ہے کہ حکومت چاقو زنی کے واقعات کے اعداد وشمار  مرتب کرے۔

جرمن پولیس ٹریڈ یونین کے مطابق، ’’بس کسی چھوٹی سی بحث کی دیر ہوتی ہے اور چاقو نکال لیے جاتے ہیں۔‘‘ چاقو کو ایک جگہ سے دوسری جگہ ساتھ لے جانا نہ صرف انتہائی سستا بلکہ نہایت آسان بھی ہے۔ 

Messer Messer Attacke Angriff Gewalt Gesellschaft
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Puklavec

میونخ، چاقو حملے میں 5 افراد زخمی، ایک مشتبہ شخص گرفتار

جرمن شہر میں ایک مہاجر کا حملہ، ایک ہلاک چھ زخمی

DPoIG کے مطابق اگر ان واقعات کو اقدام قتل کا درجہ مل جائے تو پولیس واقعے  کے ذمہ دار یا مشتبہ فرد کو کم از کم ایک سال تک تحقیقات کے لیے حراست میں لے سکتی ہے۔ اور اگر مشتبہ شخص مہاجر ہے تو اسے ملک بدر کرنے کی درخواست بھی جا سکے گی۔

جرمن پولیس ٹریڈ یونین کی جانب سے یہ اپیل ڈورٹمنڈ میں ہوئے اس واقعے کے تناظر میں کی گئی ہے جس میں ایک اسکول کے 14 سالہ طالبعلم کو چاقو کا وار کرتے ہوئے قتل کر دیا گیا تھا۔ اسی طرح جنوری میں کانڈل نامی شہر میں ایک 15 سالہ لڑکی کو  بھی اسی طرح قتل کر دیا گیا تھا۔ اس قتل کے بعد شہر میں مہاجرین کے حق اور مخالفت میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔