1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چائے لائیے، رشتے والے آئے ہیں

11 نومبر 2021

بیٹے کے باروزگار ہونے پر خاندان کے بزرگوں کا کسی لڑکی کے گھر شادی کا پیغام لے کر جانا صدیوں پرانی رسم ہے۔ خوش اسلوبی اور باہمی رضامندی سے دونوں گھرانے عقد کے فیصلے تک پہنچیں تو خوشی کے شادیانے بجنے لگتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/42rJC
Blogerin Sana Zafar
تصویر: Privat

تہذیب کی عکاسی کرتی اس خوبصورت رسم نے نہ جانے کب اس گھناؤنے کھیل کا روپ دھار لیا، جہاں گھر گھر جا کر لڑکیاں دیکھنا اور انہیں ناپسند کر کے آگے چل دینا ہمارے معاشرے میں عام فعل تسلیم کر لیا گیا۔

 ہمارے معاشرے نے لڑکے والوں کو کوئی بالاتر مخلوق تصور کر کے یہ حق دے دیا کہ وہ  جیتی جاگتی، سانس لیتی، چلتی پھرتی لڑکیوں کو کسی بے جان شے کے مترادف سمجھ لیں، جسے دیکھنے والا اپنے تخلیق کرده معیار کے مطابق جانچ کر رد کرنے کا حق رکھے۔

لڑکی والوں کو بہت دباؤ محسوس ہوتا ہے، جس دن ان کی بیٹی کو دیکھنے کوئی اور لوگ آرہے ہوں۔ چائے کی ٹرالی لوازمات سے بھرنے کے ساتھ  ساتھ پورا گھر بھی چمکایا جاتا ہے اور نمود و نمائش کے لیے سو پاپڑ بیلے جاتے  ہیں کہ یہ نہ ہو کہ مہمانوں کو کچھ ناگوار گزر جائے۔ یہ جانتے  ہوئے کہ  مہمان یہ لوازمات تناول کرنے کے بعد شاید دوبارہ کبھی رخ بھی نہ کریں والدین ہر دفعہ اتنی ہی کوشش کرتے ہیں کہ خاطر مدارت میں کوئی کثر نہ اٹھا رکھیں۔

والدین پر یہ بے جا جذباتی دباؤ اور حیثیت سے بڑھ کر خرچ کرنے کے ساتھ ساتھ ایک چیز، جسے اکثر خاطر میں نہیں لایا جاتا، وہ ہیں اس لڑکی کے جذبات، جس کا رشتہ دیکھنے کے لیے یہ سارا سلسلہ چلایا جاتا ہے۔ جس نے وہ پرکھنے والی نظریں بھی سہنی ہیں اور مسکرا کر تمام سوالات کے جواب بھی دینے ہیں۔ وہ تمام سوال جو اس کی تعلیم، کردار، عمر، سگھڑ پن، نوکری اور ماں باپ کی حیثیت کو جانچنے کے لیے مختلف الفاظ میں دہرائے جائیں گے، جب تک مہمانوں کو ان کے من پسند جوابات نہ مل جائیں۔

یہ تمام تر سلسلہ جتنا بھی تکلیف دہ اور کوفت آمیز ہو لڑکی نے پھر بھی مسکرا اور اچھا تیار ہو کر سب سے ملنا ہے اور انتہائی خوش اخلاقی کا مظاہرہ بھی کرنا ہے۔ اس بات کا بخوبی اندازہ رکھتے ہوئے کہ مہمان رد کرنے میں شاید کچھ لمحے ہی لگائیں گے، اسے ماتھے پر بل ڈالنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس کا اپنا مزاج، اس کی مرضی، اس کی پسند اور زندگی کی ترجیحات کا تو خیر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

رشتے کے لیے لڑکی کو جانچنے کے معیار بھی بہت دلچسپ ہیں اور اکثر تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ خاص کر گھر کی خواتین اپنی بہوؤں کے لیے خوب سے خوب تر معیار رکھتے ہوئے شاید اپنے بیٹے کی طرف دیکھنا ہی بھول جاتی ہیں کہ جس جنت کی حور کو ڈھونڈ نے کے لیے وہ نکلی ہیں، اس کے لیے فرشتہ بیٹا گھر میں ہے بھی یا نہیں؟

لڑکے کا مزاج، شخصیت کی پختگی، غصے کی تیزی، گھر کے کاموں میں دلچسپی اور ذمہ داری کو بہرحال انتہائی غیر ضروری سمجھا جاتا ہے اور اس کے برعکس بات کردار کی ہو، خوبصورتی کی، تعلیم  اور ذمہ داری کی ہو یا ماں باپ کی مالی حیثیت  کی، ہر معیار پر لڑکی کو ہی پورا اترنا ہوتا ہے۔

ایک دلچسپ معیار کم عمری اور اعلیٰ تعلیم بھی ہے۔ پروفیشنل ڈگری بھی ہو اور عمر بھی کم ہو بلکہ بعض اوقات تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ پیدائش سے پہلے ہی میٹرک کر لیا ہوتا تو زیادہ مناسب رہتا۔ تعلیم اتنی ضرور ہو کہ اچھی نوکری کر سکے مگر اپنی مرضی سے نہیں صرف سسرال کی اجازت سے۔  ڈاکٹر بہو سے گول روٹی بنوانے کی خواہش کی کہانی تو ہم سب بارہا سن ہی چکے ہیں۔

لڑکی خوبصورت اتنی ہو کہ ماڈل سے کم نہ لگے۔  دبلی پتلی، لمبی اور سب سے بڑھ کر گوری ہونا تو اتنا ہی ضروری ہے، جتنا نکاح میں گواہوں کا۔

قد کتنا لمبا ہو یہ لڑکے کے قد پر منحصر ہے، چھوٹا نہ ہو مگر بہت لمبا بھی نہ ہو۔ اتنا ضرور ہو کہ ساتھ کھڑی اچھی لگے مگر لڑکے جتنا يا کہیں ایک آدھ انچ لمبا ہو گیا تو خیال رہے کہ مردانگی کے بھرم کے پیچھے چھپی نازک سی انا کو ٹھیس پہنچ سکتی ہے۔ لمبے گھنے بال، بڑی بڑی آنکھیں اور اتنی دبلی کہ تولو تو پانچواں پھول نہ چڑھے۔ اللہ بھلا کرے ڈائجسٹ رائٹرز کا، جنہوں نے ان ماؤں کے ذہنوں کو اتنا تخلیقی بنا دیا ہے۔

ایک اور ضروری معیار مال و دولت کا بھی ہے یعنی بڑا گھر،  نوکر چاکر، گاڑیاں، آسائشیں بھی دو لوگوں کی قسمت کے فیصلے میں   اہم کردار رکھتی ہیں۔ اس معاملے میں تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ لڑکے والے رشتہ ایسے ہی گھر لے جانا چاہتے ہیں، جہاں پیسے کی ریل پیل نظر آئے اور لڑکی والے بھی اپنی بیٹی وہیں بھیجنا چاہتے ہیں، جہاں زیادہ سے زیادہ آسائشیں اور پیسہ ہو۔ تالی کہیں نہ کہیں دونوں ہاتھوں سے بج رہی ہے۔

یہ سب عام ہوتا دیکھیں تو انسان سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ آخر یہ سب چل ہی کیوں رہا ہے؟ لڑکیوں کے والدین جانتے بوجھتے ہوئے اپنی اور اپنی بیٹیوں کی عزت نفس بار بار داؤ پر کیوں لگاتے ہیں؟ شاید اس لیے کہ معاشرے میں رہنے کے لیے، جہاں پسند کی شادی کسی کلنک سے کم نہیں، وہاں اس اذیت سے گزر کر شادی ہونا ہی باعزت ہونے کی سند ہے؟ اور تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی معاشرے میں عزت اور ذاتی عزت نفس کو مدمقابل لایا جائے، قربانی ہمیشہ عزت نفس کو ہی دینی پڑتی ہے۔

 طے شدہ شادیوں کی تہذیب برقرار رکھنے کے لیے یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ جنت کی حوروں کی تلاش چھوڑ کر زمین پر موجود مخلوق پر اکتفا کرنا ہو گا اور خالق کے عطا کردہ ظاہری خدوخال کو ہی بہترین جان کر معیار میں کچھ حقیقت لانا ہو گی۔ اگر ہم شخصیت اور مزاج کو بھول کر رشتے جوڑتے رہے تو ڈر ہے که پیسے کا یہ کھیل، یہ خوبصورتی کے سطحی معیارات، یہ عزت نفس کا مجروح کرنا ہمیں اس نہج پر نہ لے آئے، جہاں ناکام شادیاں اور یہ اذیت ناک رشتوں کے سلسلے ہی مثال بن کر رہ جائیں اور ہماری نئی نسل نکاح جیسے فریضے سے کترانے  لگے۔