1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پی ٹی ایم کا مسلسل میڈیا بائیکاٹ: پاکستانی میڈیا آزاد؟

عبدالستار، اسلام آباد
30 اپریل 2018

پاکستان میں ذرائع ابلاغ کی طرف سے پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے جلسوں کے مسلسل غیر اعلانیہ بائیکاٹ نے جہاں ملک میں میڈیا کی آزادی سے متعلق کئی سوال کھڑے کر دیے ہیں، وہیں اس بارے میں رائے عامہ بھی منقسم نظر آتی ہے۔

https://p.dw.com/p/2wwWW
تصویر: shal.afghan

پی ٹی ایم کے جلسوں اور ان کی ملکی میڈیا میں نظر نہ آنے والی کوریج کے بارے میں پاکستانی معاشرے کا ایک حصہ اس بائیکاٹ کو درست سمجھتا ہے جب کہ دوسری طرف عوام کی ایک بہت بڑی تعداد میڈیا کے اس رویے پر تنقید بھی کر رہی ہے۔
پی ٹی ایم نے حال ہی میں وادیء سوات میں ایک بڑا جلسہ کیا۔ ناقدین کے خیال میں پاکستانی ذرائع ابلاغ نے اس جلسے کے حوالے سے منفی تاثر پھیلایا اور اس اجتماع سے متعلق صرف یہی خبر نشر کی گئی کہ وہاں ایک نوجوان کو پاکستان کا قومی پرچم لہرانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ تاہم انگریزی زبان کے پریس کے ایک حصے نے اس جلسے کو کوریج دی۔ پی ٹی ایم کا دعویٰ ہے کہ اس جلسے میں قریب چالیس ہزار افراد نے شرکت کی۔

منظور پشتین سے کچھ سوال اور ان کے جواب

پشتون تحفط موومنٹ کے ساتھ باقاعدہ مذاکرات کا آغاز

منظور پشتین ایک ’کرشماتی لیڈر‘
تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اس بائیکاٹ سے پی ٹی ایم میں اجنبیت بڑھے گی جب کہ پشتونوں میں پاکستان کی دوسری اقوام سے دوری کا احسا س بھی شدید ہو گا۔ پی ٹی ایم سوات کے رہنما علی حسن اس بائیکاٹ کا ذمہ دار خفیہ قوتوں کو سمجھتے ہیں۔ اس بارے میں انہوں نے کہا، ’’پاکستان میں اگر آپ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بولیں گے، تو آپ کا ہر سطح پر بائیکاٹ ہو گا۔ یہاں پارلیمنٹ، ذرائع ابلاغ اور دوسرے تمام ادارے اسٹیبلشمنٹ کے سامنے بے بس ہیں اور میڈیا بھی انہی کے اشارے پر ہمارا بائیکاٹ کر رہا ہے۔ اس بائیکاٹ کی وجہ سے پاکستان میں ذرائع ابلاغ کی آزادی کے دعووں پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔‘‘

 Manzoor Pashteen
پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتینتصویر: DW/Shah Meer Baloch

علی حسن کا کہنا تھا کہ پی ٹی ایم کی آواز کو دبایا نہیں جا سکتا کیونکہ صرف سوات میں ہی پی ٹی ایم کے فیس بک گروپ میں پانچ لاکھ افراد شامل ہیں جب کہ پورے پاکستان میں یہ تعداد چالیس لاکھ سے زیادہ ہے۔ علی حسن نے شکوہ کیا کہ پاکستان میں تمام سیاسی جماعتوں نے عسکری آپریشن کی حمایت کی تھی لیکن ان میں سے کوئی بھی گمشدہ افراد یا قتل کے ماورائے عدالت واقعات کے خلاف نہیں بولا۔ انہوں نے کہا، ’’جب ہم نے اپنے حقوق کے لیے بولنا شروع کیا، تو ہم پر غداری کے الزامات لگائے گئے۔ اگر آپ لوگوں کو غائب کریں گے، ماورائے عدالت قتل کریں گے، شہریوں کے بنیادی حقوق چھین لیں گے، تو لوگ آپ سے محبت نہیں کریں گے۔‘‘

یہ تاثر کہ پشتون تحفظ موومنٹ یا پی ٹی ایم کا میڈیا بائیکاٹ ملکی خفیہ اداروں کے اشاروں پر ہو رہا ہے، صرف سوات میں ہی مضبوط نہیں ہے بلکہ دیگر پشتون علاقوں میں بھی اسی تاثر کو تقویت مل رہی ہے۔ پی ٹی ایم پشاور کے ایک کارکن عزیز وزیر کے خیال میں یہ بائیکاٹ ’آئی ایس آئی کے اشارے پر‘ کیا جا رہا ہے۔

عزیز وزیر نے کہا، ’’ہم نے پی ٹی ایم کے پلیٹ فارم سے خفیہ اداروں کے مظالم کو آشکار کیا۔ اگر ذرائع ابلاغ ہمارا بائیکاٹ نہ کریں، تو ان مظالم کی داستان پورے پاکستان میں پہنچے گی۔ لیکن چونکہ خفیہ قوتیں نہیں چاہتیں کہ ملکی عوام ان کی ان حرکتوں سے واقف ہوں، اس لیے انہوں نے یہ پابندی لگوائی ہے اور ہمارے خلاف ملک دشمنی کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ لوگ دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے ساتھ غیر پاکستانیوں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔ ہم صرف وہی حقوق مانگ رہے ہیں ، جو دوسرے پاکستانیوں کو حاصل ہیں۔‘‘

Pakistan Protest Pashtun Protection Movement in Lahore
لاہور میں پی ٹی ایم کے ایک حالیہ جلسے کے ہزاروں شرکاء میں سے چند کی ایک گروپ فوٹوتصویر: Getty Images/AFP/A. Ali

دوسری طرف پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے رہنما محمد ریاض کے خیال میں میڈیا ہاؤسز کے مالکان نے حد سے زیادہ ’سیلف سنسرشپ‘ لگا لی ہے اور بعض اوقات وہ ایسی از خود پابندیاں بھی لگا لیتے ہیں، جس کے لیے کسی نے ان کو کہا ہی نہیں ہوتا۔ محمد ریاض نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’آئی ایس پی آر کہہ چکا ہے کہ اس نے میڈیا کو پی ٹی ایم کی کوریج سے نہیں روکا۔ کورکمانڈر پشاور بھی کہہ چکے ہیں کہ پی ٹی ایم کے مطالبات جائز ہیں۔ انہوں نے پی ٹی ایم کو مذاکرات کی دعوت بھی دی ہے۔ تو سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کے باوجود ذرائع ابلاغ نے پی ٹی ایم کا بائیکاٹ کیوں کر رکھا ہے۔ اگر انہیں جلسوں میں کچھ تقریروں یا نکات پر اعتراضات ہیں، تو وہ نہ دکھائیں۔ لیکن یہ مکمل بائیکاٹ کسی بھی طرح مثبت نہیں ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ زیادہ تر میڈیا مالکان کا صحافت سے کوئی ہی تعلق نہیں اور صحافتی تنظیمیں بھی اس بائیکاٹ پر خاموش ہیں کیونکہ وہ خود تقسیم ہو چکی ہیں۔‘‘

پاکستان میں کئی حلقے اس بائیکاٹ کو درست بھی سمجھتے ہیں اور حیرت انگیز طور پر کچھ پختون رہنما بھی پی ٹی ایم کے طریقہ کار سے اختلاف رکھتے ہیں اور اسے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ اے این پی کے رہنما سینیٹر شاہی سید کا کہنا ہے کہ جب آپ ملکی افواج پر تنقید کریں گے، تو لوگ آپ کو کیوں سنیں گے؟ انہوں نے کہا، ’’میرے خیال میں ان کا بائیکاٹ جائز ہے کیونکہ وہ یہ نعرے لگا رہے ہیں کہ دہشت گردی کے پیچھے فوج ہے۔ اس فوج نے تو طالبان کے خلاف جنگ میں قربانیاں دی ہیں اور پی ٹی ایم والے ان پر یہ الزام لگا رہے ہیں۔ پی ٹی ایم کی حمایت میں امریکا، افغانستان، بھارت اور الطاف حسین سامنے آ گئے ہیں۔ ان کے بڑے بڑے جلسوں کے لیے پیسہ کہاں سے آ رہا ہے۔ یہ وہ پہلو ہیں، جن سے متعلق لوگوں کے ذہنوں میں سوالات اٹھ رہے ہیں۔‘‘

منظور پشتین سے کچھ سوال اور ان کے جواب