1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پی ٹی ایم کا بنوں میں بڑا جلسہ، پاکستانی میڈیا پھر بلیک آؤٹ

شاہ زیب جیلانی
12 جنوری 2020

اتوار کو ہزاروں لوگوں کے قافلے پشتون تحفظ مومنٹ کے جلسے میں شرکت کے لیے بنوں پہنچے لیکن پاکستانی میڈیا پر اس کا ذکر غائب رہا۔

https://p.dw.com/p/3W4XC
Pakistan Manzoor Pashteen
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K.M. Chaudary

سرد موسم اور بارش کے باجود سیاہ اور سفید پرچم اٹھائے نوجوانوں کے قافلے خیبر پختونخوا کے دور دراز علاقوں سے بسوں، ویگنوں اور گاڑیوں میں جلسہ گاہ پہنچے۔

اس جلسے میں پی ٹی ایم کے رہنما منظور پشتین اور اراکین قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر نے خطاب کیا۔

        

گزشتہ برس ستمبر میں پی ٹی ایم سے وابستہ اراکین قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر کی جیل سے رہائی کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ تنظیم نے ایک بڑا جلسہ منعقد کیا۔ ان دونوں رہنماؤں کو مئی میں شمالی وزیرستان میں ایک چیک پوسٹ پر فائرنگ کے واقعے کے بعد سکیورٹی فورسز نے نظر بند کر دیا تھا۔

پشتون تحفظ مومنٹ ملک میں سکیورٹی اداروں کی طرف سے مبینہ جبری گمشدگیوں اور ماورائے قانون ہلاکتوں کے خلاف آواز اٹھاتی رہی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ وہ پرامن جدوجہد میں یقین رکھتی ہی۔

پاکستان کے عسکری اداروں کی جانب سے پی ٹی ایم کو 'ملک دشمن تنظیم‘ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

Pakistan Militär Patrouille Peschawar
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Arbab

 ماضی کی طرح اس بار بھی پی ٹی ایم کے جلسے کی خبر کا پاکستانی میڈیا پر کوئی تذکرہ نظر نہ آیا۔ جبکہ سوشل میڈیا پر پی ٹی ایم مخالف ٹرینڈ چلتے رہے۔ پی ٹی ایم کا الزام یہ ہے کہ ٹوئٹر پر اس قسم کے جعلی ٹرینڈ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے اس تنظیم کے خلاف پراپگینڈہ کا حصہ ہیں۔ جلسے کے موقع پر بنوں سے انٹرنیٹ میں خلل کی اطلاعات ہیں۔

              

ستمبر میں محسن داوڑ اور علی وزیر کی رہائی کو بعض ناقدین نے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معافی تلافی کا نتیجہ قرار دیا تھا۔ لیکن حالیہ مہینوں میں محسن داوڑ اور علی وزیر نے قومی اسمبلی کے اندر اور باہر اپنی تقاریر اور عمل سے ایسے کسی تاثر کی نفی کی۔ رہائی کے بعد دونوں رہنما ملک میں دہشت گردی کے خلاف اور آئین کی حکمرانی کے حق ميں مسلسل آواز اٹھاتے رہے ہیں۔  

پچھلے دنوں قومی اسمبلی میں آرمی چیف کی توسیع سے متعلق  متنازعہ آرمی ایکٹ کی منظوری پر جب بڑی بڑی جماعتوں نے حکومت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تب بھی ان دو اراکین پارلیمان نے اس قانون کی مخالفت کی۔