1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پی ٹی آئی کا 26واں یوم تاسیس: رجحانات اور مستقبل

عبدالستار، اسلام آباد
25 اپریل 2022

پاکستان تحریک انصاف اپنا 26واں یوم تاسیس منا رہی ہے اور ملک کے کئی حلقوں میں اس بات پربحث ہو رہی ہے کہ اس جماعت نے گزشتہ 26 برسوں میں کیا حاصل کیا اور کیا گنوایا۔

https://p.dw.com/p/4APNT
Pakistan | Imran Khan Demonstration in Lahore

کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ تبدیلی کا نعرہ لگا کر میدان سیاست میں کودنے والی تحریک انصاف نے پاکستان کی سیاست میں بہت سارے مثبت رجحانات کو فروغ دیا جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ اس جماعت کے سیاست میں آنے سے پاکستان کی سیاست میں بہت سارے منفی رجحانات آئے جس کے اثرات ملک کے طول و عرض پر دیکھے جا سکتے ہیں۔

مثبت رجحانات

لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار حبیب اکرم کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف نے سیاست میں آنے کے بعد بہت سارے مثبت رجحانات کو فروغ دیا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' تحریک انصاف نے دو جماعتی نظام کو توڑا اور یہ ثابت کیا کہ سیاسی خانوادوں کے علاوہ بھی پاکستانی سیاست میں اپنی جگہ بنائی جا سکتی ہے۔ عمران خان کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار مڈل کلاس، اپر مڈل کلاس اور اشرافیہ کے کچھ حصوں کو سیاست میں ایک موثر انداز میں لے کر آئے، جن کی سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی تھی۔ سوشل میڈیا کا بھر پور طاقت کے ساتھ استعمال کیا۔ اس کے علاوہ عمران خان سیاست میں کئی نئے چہروں کو پارلیمنٹ  میں لائے، جیسے کہ علی زیدی، علی محمد خان وغیرہ وغیرہ۔‘‘

پیٹرول اور بجلی کی قیمتیں: نئی پاکستانی حکومت کا سبسڈی کے خاتمے پر غور

پاکستان: آئی ایم ایف قرضہ بحال کرنے کی کوشش

حبیب اکرم کے مطابق پی ٹی آئی  نے نچلے طبقات کے حوالے سے آواز بلند کی۔ ''ایک عام آدمی کو پولیس، ریونیو اور سرکاری افسران سے واسطہ پڑتا تھا۔ تحریک انصاف نے خیبرپختونخوا میں کم از کم یہ کوشش کی کہ پولیس اور دوسرے سرکاری اداروں کو بہتر کیا جائے۔ اس کے علاوہ احساس پروگرام ہو، بلا سود قرضے ہوں یا چھوٹے گھروں کی تعمیر ہو ان سارے اقدامات سے ایک عام آدمی کو فائدہ ہوا ہے۔‘‘

مقاصد حاصل نہیں کر سکی

 کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ جب تحریک انصاف کو بنایا گیا تو اس وقت اس کے مقاصد اچھے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس پر ایسے عناصر حاوی ہوگئے جن کو روایتی سیاست دان کہا جاتا ہے۔ ماضی میں تحریک انصاف سے وابستہ رہنے والے جسٹس وجیہہ الدین احمد کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے تحریک انصاف جوائن کی اس وقت روایتی سیاستدانوں کا اس جماعت پر اتنا زیادہ اثر و رسوخ نہیں تھا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''لیکن دو ہزار گیارہ کے جلسے کے بعد روایتی سیاستدانوں نے پارٹی جوائن کرنا شروع کی لیکن کیونکہ اس وقت عمران خان کارکنان کو سپورٹ کرتے تھے، تو ایک امید تھی کہ شاید وہ اپنا تسلط قائم نہیں کر پائے۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کا تسلط قائم ہوگیا۔ جہانگیر ترین اور علیم خان جیسے لوگ پیسے کے بل بوتے پر پارٹی پر چھا گئے۔‘‘

مشاورت کی کمی

وجیہہ الدین کا کہنا تھا کہ پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس بہت کم  ہی ہوتے تھے اور عموماﹰ فیصلے کور کمیٹی میں کر لیے جاتے تھے۔ ''پالیسی امور پر بحث نہیں ہوتی تھی اور پارٹی اگر زوال پذیری کا شکار ہے تو اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ عمران خان اپنے اردگرد نااہل لوگوں کو رکھنا چاہتے ہیں جو صرف ان کی ہاں میں ہاں ملائیں۔‘‘

وعدہ خلافی اور یوٹرنز

جسٹس وجیہہ الدین کے مطابق عمران خان کے یوٹرنز اور وعدہ خلافی کی وجہ سے بھی پی ٹی آئی کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔ ''نہ وہ لاکھوں نوکریاں دے سکے اور نہ کرڑوں گھر بنا سکے، جس سے لوگوں میں مایوسی پھیلی۔‘‘

پارٹی فنڈنگ

پاکستان میں کئی سیاسی جماعتیں اپنے کارکنان سے چندہ یا ماہانہ کی بیناد پر پیسے لے کر تنظیمی امور نمٹاتی ہیں لیکن جسٹس وجیہہ کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی میں ایسا کوئی نظام نہیں تھا۔ ''ہاں یہ ضرور تھا کہ جب لوگ تنظیم کے اجلاس کے لیے باہر سے آتے تھے تو انہیں اپنی رہائش اور کرائے وغیرہ کے انتظامات خود کرنے پڑتے تھے۔‘‘

 پارٹی اب بھی موثر ہے

 کئی ناقدین کا خیال ہے کہ کیونکہ پی ٹی آئی کو غیر مرئی قوتوں کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ لہذا اب پارٹی میں کوئی دم خم نہیں رہا لیکن کچھ تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی نہ صرف موثر ہے بلکہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہے۔ معروف سیاسی تجزیہ نگارسہیل وڑائچ کے مطابق پی ٹی آئی اب بھی ایک بڑی سیاسی قوت ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میرا خیال ہے کہ آئندہ انتخابات میں وہ پہلے سے زیادہ ووٹ لینگے گو کہ انہیں دو تہائی اکثریت حاصل نہیں ہوگی، ان کی ووٹوں کی تعداد بڑھے گی اور پنجاب میں اصل مقابلہ پی ٹی آئی اور ن لیگ میں ہوگا۔‘‘

سہیل وڑائچ کے مطابق پی ٹی آئی کا امریکہ مخالف بیانیہ چلے گا۔ ''لیکن اس میں شاید انہیں اینٹی اسٹیبلشمنٹ عناصر شامل کرنے پڑیں گے۔‘‘

جسٹس وجیہہ کے مطابق یہ بات درست ہے کہ پی ٹی آئی کی مقبولیت دوبارہ بڑھ رہی ہے۔ ''لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک میں کوئی موثر متبادل نہیں ہے۔ اس لیے امکان ہے کہ لوگ ایک بار پھر عمران خان کے وعدے وعید پر اعتبار کرلیں گے۔‘‘

کھلی چھوٹ

تاہم پشاور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار مختار باچا کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے مستقبل کا فیصلہ اس بات سے مشروط ہے کہ انہیں کس قدر چھوٹ دی جاتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اگر آئین شکنی کے الزام میں ان پر سختی کی جاتی ہے تو یقینا ان کی کارکردگی اور مقبولیت متاثر ہوگی لیکن اگر ان کو ایسے ہی کھلی چھوٹ دی جاتی ہے اور یہ ملک کے طول و عرض پر جلسے جلوس کرتے ہیں تو پھر ان کی مقبولیت کا گراف اوپر ہو سکتا ہے کیونکہ پاکستان میں لوگ جذباتی انداز میں سوچتے ہیں۔‘‘

مختار باچا کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے پی میں اپنی مقبولیت شاید برقرار رکھ لے۔ ''لیکن میرے خیال میں انہیں دو تہائی اکثریت نہیں مل سکتی کیونکہ سندھ میں پی پی پی اور پنجاب میں ن لیگ انہیں بہت ٹف ٹائم دیں گی اور وہاں نشستیں حاصل کرنا آسان نہیں ہوگا۔‘‘